انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ مومنوں کو روزِ قیامت روک رکھا جائے گا حتی کہ اس وجہ سے وہ غمگین ہو جائیں گے ، وہ کہیں گے : کاش کہ ہم اپنے رب کے حضور کوئی سفارشی تلاش کریں تا کہ وہ ہمیں ہماری اس جگہ سے نجات دے دے ، وہ آدم ؑ کے پاس آئیں گے ، اور کہیں گے : آپ آدم ، تمام انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے تخلیق فرمایا ، آپ کو جنت میں بسایا ، اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے ، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں حتی کہ وہ ہمیں ہماری اس جگہ سے نجات دے دے ، وہ کہیں گے : میں وہاں تمہاری سفارش نہیں کر سکتا ، وہ اپنی اس خطا کو یاد کریں گے جس کا ارتکاب اس درخت کے کھانے سے ہوا تھا حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا ، بلکہ تم نوح ؑ کے پاس جاؤ ، وہ پہلے نبی ہیں ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کی طرف مبعوث فرمایا تھا ، وہ نوح ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو وہ بھی یہی کہیں گے ، میں وہاں تمہاری سفارش نہیں کر سکتا ، اور وہ اپنی اس خطا کو یاد کریں گے جو ان سے لاعلمی میں اپنے رب سے سوال کرنے سے سرزد ہوئی تھی ، بلکہ تم رحمن کے خلیل ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ ابراہیم ؑ کے پاس جائیں گے ، تو وہ بھی یہی کہیں گے : میں وہاں تمہاری سفارش نہیں کر سکتا ، اور وہ اپنے تین جھوٹوں کو یاد کریں گے جو انہوں نے بولے تھے ، بلکہ تم موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ جو اللہ کے ایسے بندے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تورات عطا کی ، ان سے کلام فرمایا اور سرغوشی کے لیے انہیں قریب کیا ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ موسیٰ ؑ کے پاس جائیں گے تو وہ بھی کہیں گے میں وہاں تمہاری سفارش نہیں کر سکتا ، اور وہ اپنی اس غلطی کا تذکرہ کریں گے کہ انہوں نے اس (قبطی) آدمی کو قتل کیا تھا ، بلکہ تم اللہ کے بندے عیسیٰ ؑ کے پاس جاؤ جو کہ اس کے رسول ہیں ، اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ عیسیٰ ؑ کے پاس جائیں گے تو وہ بھی یہی کہیں گے ، میں وہاں تمہاری سفارش نہیں کر سکتا ، بلکہ تم اللہ کے بندے محمد ﷺ کے پاس جاؤ ، اللہ نے جن کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں ۔‘‘ فرمایا :’’ چنانچہ وہ میرے پاس آئیں گے میں اپنے رب سے ، اس کے حضور آنے کی ، اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت دے دی جائے گی ، جب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھوں گا تو سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، پھر جتنی دیر اللہ چاہے گا وہ مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا ، پھر فرمائے گا : محمد ! اٹھو ، بات کرو ، تمہاری بات سنی جائے گی ، سفارش کرو ، تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ، آپ سوال کریں ، آپ کو عطا کیا جائے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا تو میں اپنے رب کی وہ حمد و ثنا بیان کروں گا ، جو وہ مجھے سکھائے گا ، پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے تعداد کا تعین کر دیا جائے گا ، میں (دربار الٰہی سے) باہر آؤں گا اور میں انہیں جہنم کی آگ سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا ، پھر میں دوسری مرتبہ جاؤں گا ، اور اپنے رب کے حضور پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا ، مجھے اس کے پاس جانے کی اجازت مل جائے گی ، جب میں اسے دیکھوں گا تو سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، جس قدر اللہ چاہے گا وہ مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا ، پھر فرمائے گا : محمد ﷺ سر اٹھاؤ ، بات کرو ، تمہیں سنا جائے گا ، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ، سوال کرو آپ کو عطا کیا جائے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ میں اپنا سر اٹھاؤں گا ، میں اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا ، پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے حد متعین کر دی جائے گی ، میں (بارگاہ رب العزت سے) باہر آؤں گا تو میں انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا ، پھر میں تیسری مرتبہ جاؤں گا ، اپنے رب کے پاس جانے کی اجازت طلب کروں گا تو مجھے اس کے پاس جانے کی اجازت مل جائے گی ، جب میں اسے دیکھوں گا تو سجدے میں گر جاؤں گا ، اللہ جب تک چاہے گا مجھے اسی حالت میں چھوڑ دے گا پھر فرمائے گا : محمد ! سر اٹھائیں ، بات کریں ، تمہیں سنا جائے گا ، سفارش کریں تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ، اور سوال کریں آپ کو عطا کیا جائے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا ، پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے حد کا تعین کر دیا جائے گا ، میں (بارگاہ رب العزت سے) باہر آؤں گا ، انہیں میں آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا ، حتی کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائے گا جسے قرآن نے روک رکھا ہو گا ۔‘‘ یعنی جس پر دائمی جہنمی ہونا واجب ہو چکا ہو ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔‘‘ قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر مبعوث فرمائے ۔‘‘ فرمایا :’’ اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا اس نے تمہارے نبی سے وعدہ فرمایا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔