ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا تو اس سے ایک دستی آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ، جبکہ دستی آپ کو پسند تھی ، آپ ﷺ نے اپنے دانتوں سے ایک بار اسے نوچا ، پھر فرمایا :’’ روزِ قیامت مَیں تمام لوگوں کا سردار ہوں گا ، اس دن تمام لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے ، سورج قریب ہو جائے گا ، اور لوگ غم و تکلیف کی انتہا کو پہنچ جائیں گے ، تمام لوگ کہیں گے ، کیا تمہیں ایسا کوئی شخص نظر نہیں آتا ہے جو تمہارے رب کے ہاں تمہاری سفارش کرے ، چنانچہ وہ آدم ؑ کے پاس آئیں گے ، اور پھر آگے حدیث شفاعت بیان کی ، اور فرمایا :’’ میں جاؤں گا اور عرش کے نیچے پہنچوں گا تو اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، پھر اللہ اپنی حمد و ثنا کے ایسے کلمات مجھے سکھائے گا جو اس نے مجھ سے پہلے کسی کو نہیں سکھائے ہوں گے ، پھر وہ فرمائے گا : محمد ! اپنا سر اٹھائیں ، سوال کریں ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ، اور سفارش کریں تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ، میں اپنا سر اٹھاؤں گا ، اور کہوں گا ، رب جی ! میری امت ، رب جی ! میری امت ، رب جی ! میری امت ، کہا جائے گا : محمد ! آپ اپنی امت کے ان افراد کو ، جن پر کوئی حساب نہیں ، ابواب جنت میں سے دائیں دروازے سے داخل کیجئے ، حالانکہ انہیں اس کے علاوہ دیگر دروازوں سے لوگوں کے ساتھ گزرنے کا بھی حق حاصل ہے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جنت کے دروازے کی دہلیز کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔