قتادہ ؒ انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے شب معراج کے متعلق انہیں بتایا کہ ’’میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا ، اور بعض روایات میں ہے ، میں حجر میں لیٹا ہوا تھا ، کہ اچانک ایک آنے والا میرے پاس آیا تو اس نے میرا سینہ چاک کیا ، میرے دل کو نکالا ، پھر میرے پاس ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا ، میرے دل کو دھویا گیا ، پھر اسے بھر دیا گیا ، پھر اسے واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ پھر (میرے) پیٹ کو آب زم زم سے دھویا گیا ، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا ، پھر خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی سفید رنگ کی براق نامی ایک سواری میرے پاس لائی گئی ، وہ اپنی انتہائے نظر تک اپنا قدم رکھتی تھی ، مجھے اس پر سوار کیا گیا ، جبریل ؑ مجھے ساتھ لے چلے ، حتی کہ وہ آسمان دنیا پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، ان سے پوچھا گیا ، آپ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : جبریل ، پوچھا گیا : اور آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : محمد (ﷺ) ، پوچھا گیا ، کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ، اور تشریف لانے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں وہاں پہنچا تو میں نے وہاں آدم ؑ کو دیکھا ، جبریل ؑ نے بتایا : یہ آپ کے والد آدم ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر انہوں نے فرمایا : صالح بیٹے ! اور صالح نبی خوش آمدید ، پھر جبریل ؑ مجھے اوپر لے گئے حتی کہ وہ دوسرے آسمان پر پہنچ گئے ، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، پوچھا گیا : کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا : جبریل ؑ ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : محمد ! پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ! آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں وہاں پہنچا تو یحیی اور عیسیٰ ؑ سے ملاقات ہو گئی ، اور وہ دونوں خالہ زاد تھے ۔ فرمایا : یہ یحیی ؑ ہیں اور یہ عیسیٰ ؑ ہیں ، ان دونوں کو سلام کریں ، میں نے سلام کیا ، تو ان دونوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی ! خوش آمدید ، نبی صالح خوش آمدید ، پھر مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے جایا گیا ، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، پوچھا گیا ، کون ہے ؟ فرمایا : جبریل ، کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا : محمد (ﷺ) پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ، آنے والے کیا ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں ادھر پہنچا تو وہاں یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے بتایا ، یہ یوسف ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی اور صالح نبی خوش آمدید ، پھر مجھے اوپر لے جایا گیا ، حتیٰ کہ چوتھے آسمان پر پہنچے ، پھر دروازہ کھولنے کے لیے درخواست کی ، پوچھا کون ہے ؟ کہا : جبریل ، پوچھا گیا : آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا : محمد ﷺ ، پوچھا گیا : کیا ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ! کہا گیا : خوش آمدید ، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، جب میں وہاں پہنچا تو ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی ، تو انہوں نے کہا ، یہ ادریس ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا : صالح نبی خوش آمدید ، پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتیٰ کہ وہ پانچویں آسمان پر پہنچے اور انہوں نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو ان سے پوچھا گیا ، آپ کون ہیں ؟ کہا : جبریل ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا : محمد ﷺ ، پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، پھر کہا گیا : خوش آمدید ، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی فرمایا : یہ ہارون ؑ ہیں انہیں سلام کریں ، پس میں نے انہیں سلام کیا ، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی ، اور نبی صالح خوش آمدید ، پھر وہ مجھے اور اوپر لے گئے ، حتیٰ کہ ہم چھٹے آسمان پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، انہوں نے پوچھا : کون ہیں ؟ فرمایا : جبریل ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا : محمد ﷺ ، پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا ، خوش آمدید ، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں موسی ؑ تشریف فرما تھے ، جبریل ؑ نے فرمایا : یہ موسیٰ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے انہیں سلام کیا ، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی اور صالح نبی خوش آمدید جب میں ان سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے ، ان سے پوچھا گیا : آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : میں اس لیے روتا ہوں کہ ایک نوجوان میرے بعد مبعوث کیا گیا ، اور اس کی امت کے جنت میں جانے والے افراد ، میری امت کے جنت میں جانے والے افراد سے زیادہ ہوں گے ، پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا ، جبریل ؑ نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی ، تو پوچھا گیا : آپ کون ہیں ؟ فرمایا : جبریل ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا : محمد ﷺ ، پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ، کتنے ہی اچھے ہیں آنے والے ؟ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ابراہیم ؑ تشریف فرما تھے ، جبریل نے فرمایا ، یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، چنانچہ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بیٹے اور صالح نبی خوش آمدید ، پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا ، اس کے میوے (بیر) حجر کے مٹکوں کی طرح تھے ، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے ، انہوں نے بتایا ، یہ سدرۃ المنتہی ہے ، وہاں چار نہریں تھیں : دو باطنی تھیں اور دو ظاہری تھیں میں نے کہا : جبریل ! یہ دو چیزیں کیا ہیں ، انہوں نے فرمایا : دو باطنی نہریں ، یہ دو نہریں جنت میں بہتی ہیں ، اور دو ظاہری نہریں ، اور یہ نیل و فرات ہیں ، پھر مجھے بیت المعمور کی طرف لے جایا گیا ، پھر میرے پاس شراب ، دودھ اور شہد کا برتن لایا گیا ، میں نے دودھ والا برتن اٹھا لیا ، انہوں نے فرمایا : یہ وہ فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے ، پھر مجھ پر دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں ، میں واپس آیا اور موسی ؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا : آپ ﷺ کو کیا حکم ملا ہے ؟ میں نے کہا : مجھے ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ، انہوں نے فرمایا : آپ ﷺ کی امت ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھے گی ، اللہ کی قسم ! میں آپ ﷺ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں ، اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہو چکا ہے ، آپ اپنے رب کے پاس دوبارہ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں ، میں دوبارہ گیا تو مجھ سے دس کم کر دی گئیں ، پھر میں موسی ؑ کے پاس آیا ، انہوں نے پھر وہی بات کی ، میں پھر حاضر خدمت ہوا ، اللہ تعالیٰ نے پھر دس نمازوں کی تخفیف فرما دی ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی ، میں پھر حاضر خدمت ہوا ، اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات دہرائی ، میں پھر اللہ کے پاس گیا تو مجھ سے دس کم کر دی گئیں ، اور مجھے ہر روز دس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر ویسے ہی فرمایا ، میں پھر (رب کے حضور) گیا تو مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا : آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے ؟ میں نے کہا : مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ، انہوں نے فرمایا : آپ ﷺ کی امت ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھے گی ، کیونکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہو چکا ہے ، آپ اپنے رب کے پاس پھر جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں ، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے اپنے رب سے (تخفیفِ نماز کے لیے اتنی مرتبہ) سوال کیا ہے لہذا اب مجھے حیا آتی ہے ، اب میں راضی ہوں اور تسلیم کرتا ہوں ، فرمایا : جب میں وہاں سے چلا تو آواز دینے والے نے آواز دی ، میں نے (پانچ نمازوں کا) اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف فرما دی ۔‘‘ متفق علیہ ۔