ثابت بنانی ؒ انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے پاس براق لائی گئی ، وہ سفید لمبا چوپایہ تھا ، جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا ، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی ، میں اس پر سوار ہوا ، اور بیت المقدس پہنچا وہاں میں نے اسے اس حلقے (کنڈے) کے ساتھ باندھ دیا جس کے ساتھ انبیا ؑ اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے ۔‘‘ فرمایا :’’ پھر میں مسجد میں داخل ہوا تو وہاں دو رکعتیں پڑھیں ، پھر وہاں سے نکلا تو جبریل ؑ میرے پاس ایک برتن شراب اور ایک برتن دودھ کا لائے تو میں نے دودھ کا برتن منتخب کیا ، اس پر جبرائیل ؑ نے فرمایا : آپ نے فطرت کا انتخاب فرمایا ہے ، پھر ہمیں آسمان کی طرف لے جایا گیا ۔‘‘ اس کے بعد راوی نے حدیث سابق کے ہم معنی روایت بیان کی ، فرمایا :’’ میں آدم ؑ سے ملا تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا ، اور میرے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی ۔‘‘ اور فرمایا :’’ تیسرے آسمان پر یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی ، ان کی شان یہ ہے کہ انہیں نصف حسن عطا کیا گیا ہے ، انہوں نے بھی مجھے خوش آمدید کہا ، اور دعائے خیر فرمائی ۔‘‘ اس روایت میں راوی نے موسی ؑ کے رونے کا ذکر نہیں کیا ، اور فرمایا :’’ ساتویں آسمان پر ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی ، آپ بیت المعمور سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ، وہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر دوبارہ ان کی باری نہیں آتی ، پھر مجھے سدرۃ المنتہی لے جایا گیا ، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے ، جبکہ اس کا پھل مٹکوں کی طرح تھا ، جب اس کو اللہ کے حکم سے جس چیز نے ڈھانپنا تھا ڈھانپ لیا ، تو اس کی حالت بدل گئی ، اللہ کی مخلوق میں سے اس کے حسن کی کوئی تعریف بیان نہیں کر سکتا ، چنانچہ اس نے میری طرف جو وحی کرنی تھی ، وہ کر دی ، اور دن رات میں مجھ پر پچاس نمازیں فرض کر دی گئیں ، میں (یہ حکم لے کر) موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا : آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا : ہر روز پچاس نمازیں ، انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس دوبارہ جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی ، کیونکہ میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور ان کا تجربہ کر چکا ہوں ۔‘‘ فرمایا :’’ میں اپنے رب کے پاس گیا ، تو عرض کیا ، رب جی ! میری امت پر تخفیف فرمائیں ، مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دی گئیں ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہیں بتایا کہ مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دی گئیں ہیں ، انہوں نے فرمایا : آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ، آپ اپنے رب کے پاس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں اپنے رب اور موسی ؑ کے درمیان آتا جاتا رہا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : محمد ! ہر روز یہ پانچ نمازیں ہیں ، اور ہر نماز کے لیے دس گنا اجر ہے ، اس طرح یہ پچاس نمازیں ہوئیں ، جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور وہ اسے نہ کر سکے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے ، اور اگر وہ اس نیکی کو کر لے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں ، اور جو شخص کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے لیکن وہ اس برائی کا ارتکاب نہیں کرتا تو اس کے لیے کچھ بھی نہیں لکھا جاتا ، اور اگر وہ اس کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اس کے لیے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نیچے آیا حتیٰ کہ موسی ؑ کے پاس آ کر انہیں بتایا تو انہوں نے پھر بھی یہی فرمایا : اپنے رب کے پاس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے کہا : میں اتنی بار اپنے رب کے پاس گیا ہوں لہذا اب مجھے (اس تخفیف کی درخواست کرتے ہوئے) حیا آتی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔