انس ؓ بیان کرتے ہیں ، عبداللہ بن سلام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کے متعلق سنا تو وہ اس وقت پھل توڑ رہے تھے ، وہ فوراً نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور عرض کیا ، میں آپ سے تین سوال کرتا ہوں جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے ، (بتائیں) علامات قیامت میں سے سب سے پہلی نشانی کیا ہے ؟ اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا کیا ہو گا ؟ بچہ کب اپنے والد کے مشابہ ہوتا ہے اور کب اپنی والدہ کے مشابہ ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جبریل نے ابھی ابھی ان کے متعلق مجھے بتایا ہے ، جہاں تک علامات قیامت کا تعلق ہے تو پہلی علامت ایک آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر دے گی ، رہا جنتیوں کا پہلا کھانا تو وہ مچھلی کے جگر کا ایک کنارہ ہو گا ، اور جب آدمی کا پانی عورت کے پانی (منی) پر غالب آ جاتا ہے تو بچہ والد کے مشابہ ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی غالب آ جاتا ہے تو بچہ عورت کے مشابہ ہو جاتا ہے ۔‘‘ (یہ جواب سن کر) انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ، (پھر فرمایا) اللہ کے رسول ! یہودی بڑے بہتان باز ہیں ، اگر انہیں ، اس سے پہلے کہ آپ ان سے میرے متعلق پوچھیں ، میرے اسلام قبول کرنے کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ پر بہتان لگائیں گے ، چنانچہ اتنے میں یہودی آ گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ عبداللہ کا تمہارے ہاں کیا مقام ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ہم میں سب سے بہتر ، ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے ، ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے بتاؤ اگر عبداللہ بن سلام اسلام قبول کر لیں (تو پھر) ؟ انہوں نے کہا ، اللہ انہیں اس سے پناہ میں رکھے ، عبداللہ اسی دوران باہر تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور یہ کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں ، پھر یہ (یہودی ان کے بارے میں) کہنے لگے : وہ ہم میں سب سے برا ہے اور ہم میں سے سب سے برے کا بیٹا ہے ، اور وہ ان کی تنقیص و توہین کرنے لگے ، عبداللہ بن سلام ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہی وہ چیز تھی جس کا مجھے اندیشہ تھا ۔ رواہ البخاری ۔