جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے تو ایک بہت سخت چٹان نکل آئی ، صحابہ کرام ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : خندق میں یہ ایک چٹان نکل آئی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (اچھا) میں اترتا ہوں ۔‘‘ پھر آپ کھڑے ہوئے ، اس وقت آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا ، تین دن گزر چکے تھے اور ہم نے کوئی چیز چکھ کر بھی نہیں دیکھی تھی ، نبی ﷺ نے کدال پکڑ کر ماری تو وہ (چٹان) ایسی ریت کی مانند ہو گئی جو آسانی سے گرتی ہے ، میں اپنی اہلیہ کے پاس آیا تو پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے ؟ کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو سخت بھوک کے عالم میں دیکھا ہے ، اس نے ایک تھیلی نکالی اس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا ایک بچہ تھا ، میں نے اسے ذبح کیا ، جو پیسے حتیٰ کہ ہم نے گوشت کو ہنڈیا میں رکھا ، پھر میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور سرغوشی کے انداز میں عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم نے اپنا بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا گوندھا ہے ، لہذا آپ تشریف لائیں اور کچھ ساتھیوں کو بھی ساتھ لے چلیں ، لیکن نبی ﷺ نے زور سے آواز دی :’’ خندق والو ! جابر نے ضیافت کا اہتمام کیا ہے ، آؤ جلدی کرو ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میرے آنے تک اپنی ہنڈیا چولہے سے اتارنا نہ روٹی پکانا شروع کرنا ۔‘‘ آپ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کے سامنے آٹا نکالا ، آپ نے اس میں اپنا لعاب ملایا اور برکت کی دعا کی ، پھر فرمایا :’’ روٹی پکانے والی کو بلاؤ وہ تمہارے ساتھ روٹی پکائے اور ہنڈیا سے سالن نکالتے رہو ، لیکن اسے چولہے سے نیچے نہ اتارو ۔‘‘ وہ ایک ہزار کی تعداد میں تھے ، میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ ان سب نے کھا لیا حتیٰ کہ وہ بچ گیا ، اور وہ واپس چلے گئے جبکہ ہماری ہنڈیا پہلے کی طرح بھری ہوئی تھی اور آٹے کی روٹیاں پہلے کی طرح پکائی جا رہی تھیں ۔ متفق علیہ ۔