ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو اس میں فرمایا :’’ تم رات بھر سفر کرنے کے بعد ان شاء اللہ کل پانی تک پہنچ جاؤ گے ۔‘‘ صحابہ کرام ؓ چلتے گئے کوئی کسی طرف التفات نہیں کر رہا تھا ، ابوقتادہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ سفر کر رہے تھے حتیٰ کہ آدھی رات ہو گئی تو آپ راستے سے ہٹ کر ایک جگہ سر مبارک رکھ کر سونے لگے اور فرمایا :’’ ہماری نماز کا خیال رکھنا ۔‘‘ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ ہی بیدار ہوئے اس وقت سورج طلوع ہو چکا تھا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سواریوں پر سوار ہو جاؤ ۔‘‘ ہم سوار ہو گئے اور سفر شروع کر دیا حتیٰ کہ جب سورج بلند ہو گیا تو آپ نے پڑاؤ ڈالا ، پھر آپ نے پانی کا برتن منگایا جو کہ میرے پاس تھا ، اس میں کچھ پانی تھا ، آپ نے احتیاط کے ساتھ اس سے وضو فرمایا ، راوی بیان کرتے ہیں ، اس میں تھوڑا سا پانی بچ گیا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہمارے لیے اس پانی کی حفاظت کرو ، عنقریب اس برتن کو بڑی عظمت حاصل ہو گی ۔‘‘ پھر بلال ؓ نے نماز کے لیے اذان دی تو رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں ، پھر نماز فجر ادا کی ، آپ سوار ہوئے تو ہم بھی آپ کے ساتھ ہی سوار ہو گئے ، اور ہم لوگوں کے پاس پہنچے تو دن اچھی طرح چڑھ چکا تھا اور ہر چیز گرم ہو چکی تھی ، لوگ کہہ رہے تھے : اللہ کے رسول ! ہم (لُو کی وجہ سے) ہلاک ہو گئے اور پیاسے ہو گئے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم ہلاک نہیں ہو گے ۔‘‘ آپ نے پانی کا برتن منگایا ، آپ انڈیل رہے تھے اور ابوقتادہ ؓ انہیں پلا رہے تھے ، لوگوں نے پانی کا برتن دیکھا تو وہ اس پر جھک گئے (امڈ آئے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے اخلاق سنوارو ، تم سب سیراب ہو جاؤ گے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے تعمیل کی تو رسول اللہ ﷺ انڈیل رہے تھے اور میں انہیں پلا رہا تھا ، حتیٰ کہ میں اور رسول اللہ ﷺ ہی باقی رہ گئے ، پھر آپ نے پانی انڈیلا اور مجھے فرمایا :’’ پیو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں آپ سے پہلے نہیں پیوں گا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگوں کو پلانے والا سب سے آخر پر پیتا ہے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، میں نے پیا اور پھر آپ نے پیا ، راوی بیان کرتے ہیں ، لوگ سیراب ہو کر راحت کے ساتھ پانی پر آئے ۔ رواہ مسلم ۔
اسی طرح صحیح مسلم میں ہے اور کتاب الحمیدی اور جامع الاصول میں اسی طرح ہے ، اور مصابیح میں لفظ ((آخرھم)) کے بعد لفظ ((شربا)) کا اضافہ ہے ۔