ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں ابوطالب ، نبی ﷺ کے ساتھ قریش کے اکابرین کی معیت میں شام کے لیے روانہ ہوئے ، جب وہ راہب کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس کے ہاں پڑاؤ ڈال کر اپنی سواریوں کے کجاوے کھول دیے ، اتنے میں راہب ان کے پاس آیا ، وہ اس سے پہلے بھی یہاں سے گزرا کرتے تھے ، لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا ، راوی بیان کرتے ہیں ، وہ اپنی سواریوں کے کجاوے اتار رہے تھے تو راہب ان کے درمیان کسی کو تلاش کرتا پھر رہا تھا حتیٰ کہ وہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گیا ، اس نے آپ کا دست مبارک پکڑ کر کہا : یہ سید العالمین ہیں ، یہ رب العالمین کے رسول ہیں ، اللہ انہیں رحمتہ للعالمین بنا کر مبعوث فرمائے گا ۔ اس پر اکابرین قریش نے پوچھا : تمہارے علم کی بنیاد کیا ہے ؟ اس نے کہا : جب تم گھاٹی پر چڑھے تو ہر شجر و حجر آپ کے سامنے جھک گیا ، اور وہ صرف کسی نبی کی خاطر ہی جھکتے ہیں ، اور میں مہر نبوت سے بھی انہیں پہچانتا ہوں جو ان کے شانے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مانند ہے ، پھر وہ واپس گیا اور ان کے لیے کھانے کا اہتمام کیا ، جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو اس وقت آپ ﷺ اونٹوں کی چراگاہ میں تھے ، اس نے کہا : انہیں بلا بھیجو ، جب آپ تشریف لائے تو بادل کا ٹکڑا آپ پر سایہ فگن تھا ، جب آپ اکیلے قوم کے پاس آئے تو وہ لوگ آپ سے پہلے ہی درخت کے سایہ میں جا چکے تھے ۔ جب آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ جھک گیا ، اس نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو کہ وہ ان پر جھک گیا ہے ، اس نے کہا : میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں سے ان کا سرپرست کون ہے ؟ انہوں نے بتایا ، ابوطالب ، وہ مسلسل ان کو قسم دیتا رہا (کہ آپ انہیں واپس لے جائیں) حتیٰ کہ ابوطالب نے انہیں واپس بھیج دیا ، اور ابوبکر نے بلال کو آپ کے ساتھ روانہ کیا ، اور راہب نے روٹی اور زیتون بطور زادراہ آپ ﷺ کو عطا کیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔