جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قریش میں سے ایک آدمی ان کے والد علی بن حسین کے پاس آیا اور اس نے کہا : کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی حدیث نہ سناؤں ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، ابوالقاسم ﷺ کی حدیث ہمیں سناؤ ، اس آدمی نے کہا : جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو جبریل ؑ آپ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : محمد ! اللہ نے آپ کی تکریم و تعظیم کی خاطر مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے ، وہ آپ کے لیے خاص ہے ، وہ آپ سے اس چیز کے متعلق دریافت کرتا ہے ، جس کے متعلق وہ آپ سے بہتر جانتا ہے ، وہ فرماتا ہے : آپ اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جبریل ! میں اپنے آپ کو مغموم پاتا ہوں ، اور جبریل ! میں اپنے آپ کو کرب میں محسوس کرتا ہوں ۔‘‘ پھر وہ دوسرے روز آئے تو انہوں نے آپ سے یہی کہا ، رسول اللہ ﷺ نے وہی جواب دیا جو آپ نے پہلے روز دیا تھا ۔ پھر وہ تیسرے روز آپ کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے وہی کچھ کہا جو پہلے روز کہا تھا ، اور آپ نے بھی انہیں وہی جواب دیا ، اور آخری بار جبریل ؑ کے ساتھ اسماعیل نامی فرشتہ آیا جو ایک لاکھ فرشتے کا سردار ہے ، اور اس کا ہر ماتحت فرشتہ لاکھ فرشتے کا سردار ہے ، اس نے آپ ﷺ سے اجازت طلب کی ، آپ ﷺ نے جبریل ؑ سے اس (فرشتوں) کے متعلق دریافت کیا ، تو جبریل ؑ نے عرض کیا : یہ موت کا فرشتہ ہے ، وہ آپ کے پاس آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے ، اس نے آپ سے پہلے کسی آدمی سے اجازت طلب کی ہے نہ آپ کے بعد کسی آدمی سے اجازت طلب کرے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے اجازت دے دیں ۔‘‘ اسے اجازت دے دی گئی ، اس نے سلام کیا ، پھر کہا : محمد ! اللہ نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے ، اگر آپ اپنی روح قبض کرنے کی مجھے اجازت دیں تو میں قبض کر لوں گا ، اور اگر آپ نے اجازت نہ فرمائی تو میں اسے قبض نہیں کروں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ موت کے فرشتے ! کیا تم ایسے کرو گے ؟‘‘ اس نے کہا : ہاں ، کیونکہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کی چاہت کا احترام کروں ، راوی بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے جبریل ؑ کی طرف دیکھا تو جبریل ؑ نے کہا : محمد ! اللہ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے ، تب نبی ﷺ نے ملک الموت سے فرمایا :’’ تمہیں جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کرو ۔‘‘ اس نے آپ کی روح قبض کی ، جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اور تعزیت کرنے والے حاضر ہوئے تو انہوں نے گھر کے کونے سے آواز سنی : اہل بیت ! تم پر سلامتی ہو ، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں ، بے شک اللہ کی کتاب میں ہر مصیبت سے عزا و تسلی ہے ، ہر ہلاک ہونے والی چیز کا معاوضہ ہے ، اور ہر نقصان کا تدراک ہے ، اللہ کی توفیق کے ساتھ اللہ سے ڈرو ، صرف اس سے امید وابستہ کرو ، خسارے والا شخص وہ ہے جو ثواب سے محروم ہو گیا علی (زین العابدین ؒ) نے کہا : کیا تم جانتے ہو کہ وہ شخص کون تھا ؟ وہ خضر ؑ تھے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔