علی ؓ بیان کرتے ہیں ، جب نبی ﷺ نماز کا ارادہ فرماتے ، اور ایک روایت میں ہے : جب آپ ﷺ نماز شروع کیا کرتے تو تکبیر کہہ کر یہ دعا پڑھا کرتے :’’ میں نے یکسو ہو کر اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے زمین و آسمان کو عدم سے تخلیق فرمایا ، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ، بے شک میری نماز ، میری قربانی ، میرا جینا اور میرا مرنا دونوں جہاں کے رب ، اللہ کے لیے ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں (اطاعت گزاروں) میں سے ہوں ، اے اللہ ! تو مالک ہے ، تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں ، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ، میں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا ، پس تو میرے سارے گناہ معاف کر دے ، کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ بخش نہیں سکتا ، بہترین اخلاق کی طرف میری راہنمائی فرما ، اچھے اخلاق کی طرف صرف تو ہی راہنمائی کر سکتا ہے ، برے اخلاق مجھ سے دور کر دے ، کیونکہ صرف تو ہی برے اخلاق مجھ سے دور کر سکتا ہے ، میں تیری عبادت پر قائم ہوں اور یہ میرے لیے باعث سعادت ہے ، تمام خیرو بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے ، جبکہ برائی تیری طرف منسوب نہیں کی جا سکتی ، میں تیرے حکم و توفیق سے ہوں اور لوٹ کر تیری ہی طرف آنا ہے ، تو برکت والا بلند شان والا ہے ، میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں ۔‘‘ اور جب آپ ﷺ رکوع کرتے تو یہ دعا پڑھتے :’’ اے اللہ ! میں نے تیرے لیے رکوع کیا ، تجھ پر ایمان لایا ، تیری اطاعت اختیار کی ، میرے کان ، میری آنکھیں ، میرا دماغ ، میری ہڈیوں اور میرے اعصاب نے تیرے لیے ہی تواضع اختیار کی ۔‘‘ جب آپ ﷺ (رکوع سے) سر اٹھاتے تو یہ دعا پڑھتے :’’ اے اللہ ! ہمارے رب ! ہر قسم کی تعریف تیرے ہی لیے ہے جس سے آسمان و زمین اور جو اس کے درمیان ہے بھر جائے ، اور اس کے بعد اس چیز کے بھراؤ کے برابر جو تو چاہے ۔‘‘ اور جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو یہ دعا کرتے :’’ اے اللہ ! میں نے تیرے لیے سجدہ کیا ، تجھ پر ایمان لایا ، تیری اطاعت اختیار کی ، میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا فرمایا ، اس کی تصویر و صورت بنائی ، اس کو سمع و بصر سے نوازا ، برکت والا اللہ بہترین تخلیق کرنے والا ہے ۔‘‘ پھر آخر پر تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیان یہ دعا کرتے :’’ اے اللہ ! تو میرے اگلے پچھلے ، پوشیدہ اور ظاہر گناہ اور جو میں نے زیادتی کی اور وہ گناہ جن کے متعلق تو مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے ، سب معاف فرما ، تو ہی ترقی دینے والا اور تو ہی تنزلی کی جانب لے جانے والا ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘
اور شافعی ؒ کی روایت میں ہے :’’ اور برائی تیری طرف منسوب نہیں کی جا سکتی ، ہدایت والا وہ ہے جسے تو ہدایت عطا فرمائے ، میں تیری توفیق سے ہوں اور میرا لوٹنا بھی تیری ہی طرف ہے ، نجات و پناہ صرف تجھ سے مل سکتی ہے ، تو برکت والا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔