Blog
Books
Search Hadith

اللہ تعالیٰ کی معرفت، توحید اوراس کے وجود کے اعتراف کے واجب ہونے کا بیان

۔ (۱۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: مَا شَائَ اللّٰہُ وَ شِئْتَ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ جَعَلْتَنِیْ وَ اللّّٰہَ عِدْلاً، بَل مَا شَائَ اللّٰہُ وَحْدَہُ۔)) (مسند أحمد: ۱۸۳۹)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے کہا: جو کچھ اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اسے فرمایا: کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کر دیا ہے، صرف (وہ ہوتا ہے) جو یکتا و یگانہ اللہ چاہتا ہے۔
Haidth Number: 10
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰) تخریج: صحیح لغیرہ ۔ أخرجہ ابن ماجہ: ۲۱۱۷(انظر: ۱۸۳۹)

Wazahat

فوائد:… بعد میں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے کئی احادیث میں اس بات کی مزید وضاحت کر دی تھی کہ کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما ہے، تمام مخلوقات کی مشیت اور اختیار اسی ایک کی مشیت کے تابع ہے اور اس سے منع کر دیا تھا کہ کوئی کسی کی مشیت کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے برابر سمجھے، قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ کائنات وسیع و عریض انتظام و انصرام پر مشتمل ہے، اس کی وسعت انسانی عقلوں سے ما ورا ہے۔ اس کائنات کے پورے نظم و نسق میں اللہ تعالیٰ کی منشا و مرضی کارفرما ہے۔ خوشحالی کا معاملہ ہو یا بدحالی کا، عنایت ِ رزق کا معاملہ ہو یا تنگی ٔ رزق کا، فتح کا معاملہ ہو یا شکست کا، کامیابی کا معاملہ ہو یا ناکامی کا، حیات کا معاملہ ہو یا موت کا، بچپنے میں فوت ہو جانے کا معاملہ ہو یا ادھیڑ عمر تک زندہ رہنے کا، خوبصورتی کا معاملہ ہو یا بدصورتی کا، طلوعِ آفتاب کا معاملہ ہو یا کسوفِ شمس کا، جنت کا معاملہ ہو یا جہنم کا، غرضیکہ کائنات کے تمام معاملات کو سر انجام دینے میں اسی ایک اللہ کا حکم چلتا ہے، اسی کی سنی جاتی ہے۔ اگر سید الاولین والا ٓخرین محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی منشا اللہ تعالیٰ کی چاہت کے تابع ہے تو اور کون ہے کسی مائی کا لال ، جو اُس کی چاہت کے سامنے اپنی مرضی کا لوہا منوا سکے۔ ہمارے ہاں بھی بعض لوگوں کو دیکھا گیا کہ وہ جب اپنے محسنوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ اور اُن کا لفظ اور کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، مثلا: ہم پر اللہ تعالیٰ اور آپ کا بڑا احسان ہے، اگر اللہ تعالیٰ اور آپ نہ ہوتے تو معلوم نہیں کہ ہم کون سے حالات سے گزر رہے ہوتے، جیسے اللہ تعالیٰ اور آپ کی مرضی ہو گی۔ ہمیں اپنے جملوں کی تصحیح کرنی چاہیے اور کسی کے احسانات کا تذکرہ کرتے وقت محسِنِ عظیم اللہ تعالیٰ کی عظیم ذات سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔