Blog
Books
Search Hadith

عورتوں کی مذمت کا بیان

۔ (۱۰۰۴۲)۔ عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا تَرَکْتُ فِیْ النَّاسِ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَائِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۱۷۲)

۔ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے بعد لوگوں میں کوئی ایسا فتنہ نہیں چھوڑا، جو مردوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہو، ما سوائے عورتوں کے۔
Haidth Number: 10042
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۰۴۲) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین، أخرجہ البزار: ۲۵۹۶،والنسائی فی الکبری : ۹۲۷۰ (ا فنظر: ۲۱۸۲۹)

Wazahat

فوائد: … شریعت ِ اسلامیہ میں ایک طرف تو عورت کو کلیدی حیثیت کا مالک ٹھہرایا گیا ہے، یہ عورت ہی ہے جو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کا روپ اختیار کرکے اپنے بیٹوں، اپنے باپوں، اپنے بھائیوں اور اپنے خاوندوں سے الفت و محبت اور احترام و اکرام وصول کرتی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ، وَ خَیْرُ مَتَاعِھَا اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ۔ )) (مسلم: ۱۴۶۷) … دنیا ساز و سامان ہے اور دنیا کا بہترین سامان، نیک عورت ہے۔ عورتوںکے ساتھ بہترین حسن سلوک اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا، وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِھِمْ۔)) (ترمذی: ۱۱۶۲) … تم میں کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے اور تم میں سب سے بہتر وہ آدمی ہے، جو اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو سب سے زیادہ تحفظ، احترام اور مقام عطا کیا، مردوں کو ان کی دنیوی ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا، ان کی عزتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سرے سے غیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنے اور بالخصوص نظرِ بد سے دیکھنے سے منع کر دیا۔ بہرحال اس مقام ومرتبہ کے باوجود عورت فتنہ باز، سازشی، مکار، ناشکری اور شکایتی ثابت ہوئی ہے۔ اس کی نالائقی اور بے صبری کو دیکھیں کہ یہ ایک خاوند، ساس سسر اور گھر میں بسنے والے چند افراد کو راضی نہیں رکھ سکتی ہے۔ عصر حاضر میں عورتوں کی نیم برہنہ حالت اور بے پردگی اچھے خاصے مومنوں کے لیے بڑی آزمائش ثابت ہوئی ہے، بازاروں میں بدکاری اور نظروں کا زنا عام ہے، گھروں سے باہر نکل کر جدھر نگاہ اٹھائیں، ہر طرف شیطانوں کے روپ میں عورتوں کے جاذبِ نظر چہرے اور بدکاری کے اسباب و وسائل نظر آتے ہیں، رہی سہی کمی میڈیا اور اشتہار بازی نے خوب پوری کر دی ہے۔ اس سے بڑا مکر و فریب کیا ہو سکتا ہے کہ شادی کے چند روز بعد ہی عورت نے اپنے خاوند کے سامنے قسما قسم کے بتول پڑھ پڑھ کے اسے خرید لیا اور اس کو اس کے والدین اور بہن بھائیوں کا دشمن ثابت کر دکھایا۔ آجکل مرد حضرات اپنے مجازی خالق والدین کی گستاخی کرتے ہیں، اپنے بہن بھائیوں کی محبتوں کو ٹھکرا دیتے ہیں اور ان کے بھتیجے اور بھانجے ان کے میٹھے بولوں کو ترسنے لگتے ہیں، ان سب کارستانیوں کی جڑ عورت ہے۔ چشم فلک گواہ ہے کہ شادی سے پہلے رشتہ داروں کے ساتھ معاملات اور ہوتے ہیں اور شادی کے بعد رخ بدلتے ہوئے نظرآنے لگتے ہیں، آخر ایسا کیوں ہے؟ ساس کے کردار پر نگاہ ڈالیں، اس کی سازشوں کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ اس کا داماد اس کی بیٹی کا ہو کر رہ جائے اور اپنے جنم دینے والوں کو دشمن سمجھنے لگے۔ کتنے بدبخت اور کمینے ہیں وہ لوگ، جو اپنی بیویوں اور ساسوں کے پاس بیٹھ کر اپنی ماؤں بہنوں کی بدخوئی کرتے ہیں۔ مسلم معاشرہ کے اکثر افراد بدکار، چالباز اور آوارہ عورتوں کے جال میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپ نے کبھی پوری دنیا میں تعلیمی میدان میں شکست کھاجانے والے ذہین نوجوانوں کے پست ہو جانے کے اسباب پر کبھی غور کیاہے؟ کالجز اور یونیورسٹیز کے آوارہ صفت ماحول کے نتائج پر کبھی غور کیا ہے؟ والدین سے بے رخی کرنے والے بیس سالہ لڑکے کے اسباب کے بارے میںدریافت کیا ہے؟ معاشرے کے اکثر نوجوان شادیوں کے قابل کیوں نہیں رہے؟ شادی کا نام سن کر ان کے رنگ پیلے کیوں پڑ جاتے ہیں؟ والدین کی طے شدہ نسبتوں کو کیوں ٹھکرا دیا گیا؟ ایک آدمی بچوں کا باپ ہونے، ان کے ناز نخرے پورے کرنے اور ان سے پیارو محبت کے دعوے کرنے کے باوجود اپنے ماں اور باپ کو کیوں بھول جاتا ہے؟ وسعت ہونے کے باوجود اپنے والدین پر خرچ کرنے کے معاملے میں کیوں کنجوسی برتی جاتی ہے؟ … … شاید ان سب سوالوں کے جوابات لفظ عورت پر آ کر رک جائیں۔ یہ ایک مشاہدہ شدہ حقیقت ہے کہ خاتون کو ہر ایک کے احسانات یاد ہوتے ہیں، وہ اپنے بھائیوں اور بہنوئیوں کی تعریف کرے گی، وہ اس شخص کی مدح سرائی کرنا بھی نہیں بھولے گی، جس نے خوشی کے موقع پر اس کے بچے کو پانچ سو روپیہ دیا ہو گا، ما سوائے اپنے خاوند کے، جو مہینوں میں اس پر ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے، لیکن اس کے منفی پہلو کو سامنے رکھ کر اس کی بغاوت اور احسان فراموشی کی جائے گی، الا ما شاء اللہ۔