Blog
Books
Search Hadith

مال کی مذمت کا بیان

۔ (۱۰۰۵۴)۔ عَنْ کَعْبِ بْنِ عِیَاضٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((اِنِّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ فِتْنَۃٌ وَاِنَّ فِتْنَۃَ اُمَّتِیْ الْمَالُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۶۱۰)

۔ سیدنا کعب بن عیاض ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ہر امت کا فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔
Haidth Number: 10054
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۰۵۴) تخریج: حدیث صحیح، أخرجہ الترمذی: ۲۳۳۶ (انظر: ۱۷۴۷۱)

Wazahat

فوائد:… وہ مال و دولت فتنہ ہے، جو عبادات، معاملات اور اخلاق کے واجبات و مستحبات میںکوتاہی کرنے پر اور محرمات و مکروہات کا ارتکاب کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور مال داروں کی اکثریت اس فتنے میں مبتلا رہی ہے، لیکن وہ خود نہ اس نقطے کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ سمجھنے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ قارئین کرام! کسی معاشرے پر تبصرہ کرتے وقت اس کی اکثریت کو دیکھا جاتا ہے، نہ کہ چند افراد کو۔ اس امت کا فتنہ مال ہے، اس ضمن میں درج ذیل چند اقتباسات پر غور کریں: اس سلسلے میں یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ مال و دولت کی کثرت و بہتات نے زیادہ تر لوگوں کے مزاجوں کو تبدیل کیا ہے۔ ان کی ترجیحات تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں، امیر لوگ اپنی امیری کی بنا پر ناز کرتے ہوئے اپنے آپ کو بلند مرتبت اور کم آمدنی والوں کو کم تر سمجھتے ہیں اور ان سے حسن سلوک سے پیش نہیں آتے، ان کے تعلق یا دوستی کی بنیاد روپے پیسے پر ہوتی ہے، یہ لوگ اپنے جیسے مالداروں، جاگیرداروں، بڑے سیاسی رہنماؤں اور اعلی منصب داروں کا خوشامد کی حد تک احترام کریں گے اور بھرپور انداز میں ان کی ضیافت کریں گے، لیکنجب کوئی غریب اور نیک آدمی ان کے دروازے پر آئے تو اپنے نوکروں چاکروں کے ذریعے ڈیل کرنے کو کافی سمجھ کر اس کو دروازے سے واپس کرنے کی کوشش کریں گے۔ کم ہی دیکھا گیا ہے کہ وہ کسی نیک آدمی کی عزت اس کی نیکی کی وجہ سے کریںیا اس سے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملاقات ہی کر لیں، بلکہ زیادہ تر اِن کو مذہبی لوگوں پر کیچڑ اچھالتے ہوئے پایا جاتا ہے۔ اگر عبادات کے معاملے کو سامنے رکھیں تو عام لوگوں کی فتح نظر آتی ہے، کسی مسجد کے نمازیوں کی تعداد میں عام لوگوں اور سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والوں کا تناسب دیکھا جا سکتا ہے، تلاوتِ قرآنِ اور حفظ ِ قرآن کے سلسلے میں موازنہ کیا جا سکتا ہے، میں نے اپنی زندگی میں چند امیرافراد پائے جنہوں نے قرآن مجید حفظ کیا اور اسے بھی آرام پرستی کی وجہ سے بھلا دیا۔ یہی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی احادیث کی درس و تدریس اور تحقیق و تفتیش کا معاملہ ہے۔ علی ہذا القیاس۔ چشم فلک اور ہر صاحب ِ بصارت کی بصیرت گواہ ہے کہ دنیوی آسائشوں کی وجہ سے عبادات کا سلسلہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، یہی وجہ ہے کہ آج مساجد میں نمازیوں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے اور اچھے خاصے نمازی لوگ صرف اس وجہ سے نمازِ فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد میںحاضر نہیں ہوتے کہ شام کو خوب پیٹ بھر کر کھاتے ہیں اور نرم گدے بچھا کر اور ملائم کمل اوڑھ کر اور پنکھے، روم کولر یا اے سی وغیرہ چلا کر سوتے ہیں، ایسے ماحول میں نیند کا کردار نشہ سے کم نہیں ہوتا، نیند پورا ہونے کا نام نہیں لیتی، اعضا ڈھیلے پڑ جاتے ہیں،نتیجتاً فجر کی جماعت یا سرے سے نمازِ فجر سے ہی محروم ہو جاتے ہیں۔ میں بالیقین کہتا ہوں کہ بظاہر انتہائی پر سکون ماحول میں سونے والوں کی نیند کی مقدار کہیں زیادہ ہوتی ہے، جبکہ انہی کی طرح کے انسان دن میں چار، پانچ، چھ گھنٹے سو کر ان سے زیادہ صحت مند نظر آتے ہیں۔ رہا مسئلہ قلت ِ مال یا کثرتِ مال کے بہتر ہونے کا، تو یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار کرنا ناممکن ہے کہ دین کی حفاظت کے لیے، ارکانِ اسلام کی ادائیگی کے لیے اور کئی مفاسد سے بچنے کے لیے قلت ِ مال بہترین ذریعہ ہے اور رہا ہے، یقین مانیے کہ اگر گزر بسر کے بقدر رزق نصیب ہو جائے تو دنیا کا حقیقی سکون مل جاتا ہے۔ یہ غربت ہی ہے جو بچوں کو دینی تعلیم دینے، قرآن مجید حفظ کرنے اور قرآن و حدیث کی تعلیم کے حصول پر آمادہ کرتی ہے اور یہی لوگ ہیں کہ دین کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے جن کی اکثریت کو استعمال کیا گیا۔مزاج میں سادگی اور ہر آدمی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا ان ہی لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اس سے بڑا انعام کیا ہو سکتا ہے کہ مسکین لوگ امیر لوگوں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ بہرحال یہ ایسے حقائق ہیں جو امیر زادوں اور مال و دولت کے طلبگاروں کے لیے ناقابل تسلیم ہیں۔ قارئین کرام! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مال و دولت کی کثرت و وسعت کا بندے کو جہاد سمیت شرعی واجبات سے روک دیناباعث ِ ہلاکت ہے، جس کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ} (سورۂ بقرہ: ۱۹۵) … اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ بہرحال سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کے مال کی وجہ سے ہی غنی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، وہ مالدار بڑے خوش بخت ہیں جو اپنی اوقات کو اور اپنے ماضی کو نہیں بھولتے اور اپنے مال و دولت کے تقاضے اور بلا تفریق اہل اسلام کے حقوق ادا کرتے ہیں۔