Blog
Books
Search Hadith

دنیا کی مذمت کا بیان

۔ (۱۰۰۷۸)۔ عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کَانَتْ نَاقَۃُرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تُسَمَّی الْعَضْبَائَ وَکَانَتْ لَا تُسْبَقُ، فَجَائَ اَعْرَابِیٌّ عَلٰی قَعُوْدٍ فَسَبَقَھَا فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ، فلَمَّا رَاٰی مَافِیْ وُجُوْھِھِمْ، قَالُوْا: سُبِقَتِ الْعَضْبَائُ فَقَالَ: ((اِنَّ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ اَنْ لَا یَرْفَعَ شَیْئًا مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا وَضَعَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۰۳۳)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک اونٹنی تھا، اس کا نام عضباء تھا، کوئی دوسرا اونٹ اس سے سبقت نہیں لے جا سکتا تھا، پس ایک دن ایک بدّو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اس سے آگے گزر گیا،یہ چیز مسلمانوں پر بڑی گراں گزری، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے چہروں سے ان کی پریشانی کو محسوس کیا تو اتنے میں انھوں نے خود کہہ دیا کہ عضباء تو پیچھے رہ گئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ دنیا میں جس چیز کو بلند کرے گا، اس کو نیچے بھی کرے گا۔
Haidth Number: 10078
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۰۷۷) تخریج: حسن لغیرہ، أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۱۸/ ۹۳، والبزار: ۲۷۵۸(انظر: ۲۳۹۸۲)

Wazahat

فوائد:… شاید ہی کوئی بشر ایسا ہو، جس نے اپنی زندگی میں دنیوی اعتبار سے عروج اور زوال کو نہ پایا ہو، وگرنہ عام طور پر دیکھایہ گیا ہے کہ غربت کے بعد امیری اور امیری کے بعد غربت، محرومی کے بعد بڑے بڑے عہدے اور بڑے بڑے عہدوں کے بعد محرومی ، ایک وقت میں آدمیاپنی بڑی عزت دیکھتا ہے، لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ معاشرے کا بے وقعت فرد بنا ہوا ہوتا ہے، فرعون، قارون، نمرود، ابو جہل اور ابولہب جیسے بڑے بڑے سرکش اپنے آپ کو اس قانون سے مستثنی نہ کر سکے۔ یہ دنیا اور اہل دنیا سے متعلقہ قانون ہے، نہ کہ دین اور اہل دین کے بارے میں، دین اور اس پر عمل کرنے والوں کا مقدر ایسی رفعت و بلندی ہے کہ جس میںہمیشہ عروج رہتا ہے، اس کو کوئی زوال نہیں ہے۔ شارح ابوداود علامہ عظیم آبادی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ صاحب نے کہا: اس حدیث میں دنیا سے بے رغبتی دلائی گئی ہے کہ اس میں جو چیز بھی رفعت اختیار کرتی ہے، وہ بالآخر پست ہو جاتی ہے۔ حافظ منذری کہتے ہیں: بعض نے کہا کہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کا مقام بیان کی گیا ہے کہ یہحقیر اور پست چیز ہے۔ در حقیقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی امت کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا کے مال و متاع کی بنا پر فخر و مباہاۃ کرنا ترک کردیں اور ہر اہل دین و دانش کو چاہئے کہ وہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرے اور اس کو پا کر دوسروں پر برتری جتانا چھوڑ دے، کیونکہدنیوی سازو سامان بہت قلیل ہے اور اس کا حساب و کتاب بڑا طویل ہے۔ (عون المعبود)