Blog
Books
Search Hadith

عمارتوں کی مذمت کا بیان

۔ (۱۰۰۸۹)۔ عَنْ اُمِّ مُسْلِمٍ الْاَشْجَعِیَّۃِ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَتَاھَا وَھِیَ فِیْ قُّبَّۃٍ، فَقَالَ: ((مَا اَحْسَنَھَا اِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْھَا مَنِیَّۃٌ۔)) قَالَتْ: فَجَعَلْتُ اَتَتَبَّعُھَا۔ (مسند حمد: ۲۸۰۱۲)

۔ سیدہ ام مسلم اشجعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس تشریف لائے، جبکہ وہ اپنے ایک گنبد میں تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کتنا خوبصورت ہے، بشرطیکہ اس میں موت نہ ہوتی۔ وہ کہتی ہیں: پھر میں نے اس کی تلاش شروع کر دی۔
Haidth Number: 10089
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۰۸۹) تخریج: اسنادہ ضعیف لابھام الراوی عن ام مسلم، أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۲۵/ ۳۷۵ (انظر: ۲۷۴۶۵)

Wazahat

فوائد:… شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ لکھتے ہیں: آپ کو علم ہونا چاہیے کہ ان احادیث میں مسلمان کو ترغیب دلائی جا رہی ہے کہ وہ ضرورت سے زائد عمارتوں پر زیادہ توجہ نہ دھرے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اگر کسی فرد کے کنبے کے قلیلیا کثیر افراد اور مہمانوں کی کثرت یاقلت کو سامنے رکھا جائے تو عمارت کے سلسلے میں کوئی معینہ حدّ پیش نہیں کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ درج ذیل حدیث ِ مبارکہ کو درجہ بالا احادیث کا متضاد نہیں سمجھا گیا: ((فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ، وَفِرَاشٌ لِأِمْرَأَتِہِ، وَالثَّالِثُ لِلضَیْفِ وَالرَّابِعُ لِلشَّیْطَانِ۔)) … ایک بچھونا مرد کے لیے، ایک بچھونا اس کی بیوی کے لیے، ایک مہمان کے لیے اور چوتھا شیطان کے لیے ہوتا ہے۔ یہ صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث ہے، میں نے صحیح ابو داود میں اس کی تخریج کی ہے۔ اسی لیے حافظ ابن حجر ؒنےکہا: انتمامروایات کو (ان عمارتوں پر) محمول کیا جائے گا، جن کی تعمیر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی،یعنی وہ رہائش کے لیے اور گرمی و سردی سے بچنے کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔ پھر حافظ صاحب نے بعض لوگوں کے ایسے اقوال بیان کیے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کی عمارت گناہ ہے، پھر ان کا تعاقب کرتے ہوئے کہا: عمارت کا معاملہ اس طرح نہیں ہے،بلکہ اس میں تفصیل ہے، ضرورت سے زائد ہر عمارت کو گناہ نہیں قرار دیا جا سکتا… بلکہ بعض عمارتوں میں تو ثواب ہوتا ہے اور وہ اس طرح کہ دوسرے لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں، ایسی صورت میں مالک اجرو ثواب کا مستحق ہو گا۔ واللہ اعلم۔ (صحیحہ: ۲۸۳۱) عصرِ حاضر میں پرشکوہ محلات اور کوٹھیوں اور ان کے لوازمات پر بھاری رقم خرچ کی جا رہی ہے، حالانکہ گھر بنانے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ مختلف موسموں کی سختیوں سے اپنی حفاظت کی جائے اور یہ مقصد دس گیارہ مرلہ کے پلاٹ پر پانچ چھ لاکھ روپیہ صرف کر کے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اور کروڑہا روپیہ بھی،یہ۱۴۳۵ ھ (۲۰۱۴ ئ) کی بات ہے۔ قومِ عاد نے مضبوط اور عالی شان رہائشی عمارتیں تعمیر کیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: {وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ} … اور بڑی صنعت والے (مضبوط محل تعمیر) کر رہے ہو، گویا کہ تم ہمیشہیہاں رہو گے۔ (سورۂ شعرائ: ۱۲۹)