Blog
Books
Search Hadith

اس شخص کا بیان کہ جس پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لعنت کریں،یا اس کو برا بھلا کہیں،یا اس پر بد دعا کریں، جبکہ وہ اس کا مستحق نہ ہو تو یہ چیز اس کے لیے پاکیزگی، اجر اور رحمت کا باعث ہو گی

۔ (۱۰۱۱۸)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ غَزْوَۃِ تَبُوکَ قَالَ: فَبَلَغَہُ اَنَّ فِیْ الْمَائِ قِلَّۃً الَّذِیْیَرِدُہُ فَاَمَرَ مُنَادِیًا فَنَادٰی فِیْ النَّاسِ اَنْ لَا یَسْبِقْنِیْ اِلَی الْمَائِ اَحَدٌ، فَاَتَی الْمَائَ وَقَدْ سَبَقَہُ قَوْمٌ فَلَعَنَھُمْ۔ (مسند احمد: ۲۳۷۸۷)

۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ تبوک کے موقع پر نکلے، جب راستے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کا علم ہوا کہ اس پانی میں قلت ہے، جس پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وارد ہونے والے ہیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کرے کہ کوئی آدمی پانی کی طرف آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سبقت نہ لے جائے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب پانی پر پہنچے تو دیکھا کہ کچھ افراد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سبقت لے جا چکے تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان پر لعنت کی۔
Haidth Number: 10118
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۱۱۸) تخریج: أخرجہ مسلم: ۲۷۷۹(انظر: ۲۳۳۹۵)

Wazahat

فوائد:… غزوۂ تبوک کے سفر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رفقاء صحابۂ کرام تھے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی لعنت پر مشتمل بد دعاان کے لیے باعث ِ تزکیہ و رحمت ہو گی۔ ابو سوار اپنے ماموں سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک طرف گئے اور کچھ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے چل پڑے، میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا، لوگ جلدی جلدی چل رہے تھے، کچھ افراد پیچھے رہ گئے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک چیزسے ضرب لگائی، وہ کھجور کی شاخ، یا چھڑی،یا مسواک، یا کوئی اور چیز تھی، پس اللہ کی قسم! اس نے مجھے تکلیف تو نہیں دی، لیکن میری وہ رات سوچ و بچار میں ہی گزر گئی، میں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے صرف اس چیز کی وجہ سے مارا ہو گا، جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے بارے میں بتلائی ہو گی، پھر مجھے خیال آیا کہ جب صبح ہو گی تو میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جاؤں گا، پس جبریل علیہ السلام یہ پیغام لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نازل ہوئے: بیشک آپ نگہبان ہیں، پس اپنی رعایا کے سینگ نہ توڑ دینا (یعنی ان کے ساتھ نرمی کرنا)۔ پس جب ہم نے نماز فجر ادا کییا صبح کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! بیشک کچھ لوگ میرے پیچھے چلے، جبکہ میں یہ نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ میرے پیچھے چلیں، اے اللہ! پس میں نے جس آدمی کو مارا یا برا بھلا کہا تو تو اس چیز کو اس کے لیے کفارے، اجر، بخشش اور رحمت کا باعث قرار دے۔ یا جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا۔