Blog
Books
Search Hadith

چہرے پرمارنے، چہرے کو برا بھلا کہنے اور اس پر داغنے سے ممانعت کا بیان

۔ (۱۰۱۴۰)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِذَا ضَرَبَ اَحَدُکُمْ فَلْیَجْتَنِبِ الْوَجْہَ، وَلَا تَقُلْ قَبَّــحَ اللّٰہُ وَجْھَکَ وَوَجْہَ مَنْ اَشْبَہَ وَجْھَکَ، فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہِ۔)) (مسند احمد: ۹۶۰۲)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی کسی کو سزا دے تو چہرے پر مارنے سے گریز کرے اور نہ یہ کہے کہ اللہ تیرے چہرے کو اور اس آدمی کے چہرے کو بھلائی سے دور کرے، جو تیرے چہرے کے مشابہ ہو، پس بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس کی صورت پر پیدا کیا۔
Haidth Number: 10140
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۱۴۰) تخریج: اسنادہ قوی، أخرجہ البیھقی فی الاسماء والصفات : ص ۲۹۱، والحمیدی: ۱۱۲۰ (انظر: ۹۶۰۴)

Wazahat

فوائد:… قَبَّح کے معانی بدصورت بنانے، برا بنانے، بھلائی سے دور کرنے،مذمت کرنے اور برا ٹھہرانے کے ہیں، سب کا مفہوم ایک ہی بنتا ہے۔ یہ حدیث احترامِ انسانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، ہر سلیم الفطرت شخص تسلیم کرتا ہے کہ تربیتی مراحل میں بعض اوقات سزاؤں کا مرحلہ بھی ناگزیر ہو جاتا ہے، شریعت ِ اسلامیہ نے نہ صرف اس ضابطے کو برقرار رکھا، بلکہ مقامِ انسانیت کو مجروح ہونے سے بچایا۔ حافظ ابن حجر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: امام نووی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: علمائے کرام کا خیال ہے کہ چہرہ نرم و نازک اور پیاری چیز ہے، تمام محاسن کا مجموعہ ہے، یہ حواس خمسہ (دیکھنا، سونگنا، چکھنا، سننا، چھونا) کے اکثر حصے پر بھی مشتمل ہے، یہ اندیشہ ہے کہ کسی ضرب کی وجہ سے چہرہ بھدا، بھونڈا اور بدشکل دکھائی دے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مارنے سے نہ صرف بھونڈا پن اور عیب داری نظر آئے گی، بلکہ وہ انتہائی واضح لگے گی، ان وجوہات کی بنا پر شریعت ِ اسلامیہ نے چہرے پر مارنے سے منع کر دیا ہے۔ (فتح الباری: ۵/ ۲۲۹) حافظ ابن حجر دوسرے مقام پر اس حدیث ِ مبارکہ کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان کی صورت پر پیدا کیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو جس صورت پر پیدا کیا گیا، جنت میں اور جنت سے اترنے کے بعد، بلکہ وفات تک وہی صورت قائم رہییا اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو ابتدائے تخلیق سے ایک وجود عطا کر دیا گیا، جبکہ ان کی اولاد اپنی تخلیق کے دوران کئی مراحل سے گزرتی ہے۔ اس حدیث ِ مبارکہ میں آخرت کے منکر اور زمانے کی بقا کے قائلین دہریوں کا ردّ ہے، جن کا خیال ہے کہ انسان نطفے سے پیدا ہوتا ہے اور نطفہ انسان سے نکلتا ہے اور اس کی کوئی ابتدا نہیں، بلکہ ازل سے انسانی تخلیق کا یہ نظام چل رہا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس حدیث میں وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ نے خود انسانِ اوّل آدم علیہ السلام کو ان کی صورت پر پیدا کیا۔ نیز اس حدیث میں ماہرینِ علمِ طبیعات کا بھی ردّ ہے، جن کا خیال ہے کہ انسان، ایک فطرت اور اس کی تاثیر کا فعل ہے۔ یہ حدیث قدریوں کا بھی ردّ کرتی ہے جو تقدیر خداوندی کے منکر ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ انسان اپنے افعال کی تخلیق خود کرتا ہے،نہ کہ اللہ تعالی۔ (فتح الباری: ۱۱/ ۴) شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: اس حدیث میں عَلٰی صُوْرَتِہِ میں ہ ضمیر کا مرجع لفظِ آدم ہے، نہ کہ لفظِ اللہ، کیونکہیہی قریب ہے اور صحیح بخاری کی سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والی روایت میں اس کییوں وضاحت کی گئی ہے: ((خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہِ طَوْلُہٗسِتُّوْنَ ذِرَاعًا۔)) (صحیحہ: ۴۴۹)… اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس کی صورت پر پیدا کیا اور ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ رہا مسئلہ اس حدیث کا: ((خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَۃِ الرَّحْمٰنِ۔)) … اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو رحمن کی صورت پر پیدا کیا۔ تویہ منکر ہے، میں نے اس کی تفصیل (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ۱۱۷۵، ۱۱۷۶) میں بیان کی ہے اور شیخ تویجری ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ جیسے ہم عصروں کی تصحیح کا ردّ بھی کیا ہے۔ (صحیحہ: ۸۶۲) دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں: یہ روایت ان لوگوں کے قول کی تائید کرتی ہے، جو لفظِ آدم کو ہ ضمیر کا مرجع بناتے ہیں، اس حدیث کا مفہوم یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جس ہیئت پر پیدا کیا تھا، اسی پر ان کو وجود بخشا، یعنی ان کو اپنی اولاد کی طرح نہ اپنی تخلیق کے دوران مختلف احوال سے گزرنا پڑا اور نہ رحموں میں پہلے نفطہ، پھر علقہ، پھر مضغہ، پھر عظام اور لحم اور خلق تامّ جیسے مراحل طے کرنا پڑے، بلکہ جونہی اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی تو ان کو کامل و مکمل، معتدل و مناسب اور ٹھیک و درست بنا دیا۔ امام ابن حبان ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اس حدیث پر مفصّل اور مفید گفتگو کی ہے، آپ اس کا مراجعہ کر لیں۔ (صحیحہ: ۴۴۹) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کسی انسان کو سزا دیتے وقت اس کے چہرے کا احترام کیا جائے، لیکن اس کے باوجود بعض لوگ اپنے ملازموں کو اور بعض آباء و اساتذہ اپنے بچوں اور شاگردوں کو سزا دیتے وقت چہرے پر تھپڑ مارتے ہیں۔ ایسے کرنے سے اس حدیث کی مخالفت ہو گی۔