Blog
Books
Search Hadith

توبہ کی کیفیت اور اس چیز کا بیان کہ توبہ کا ارادہ کرنے والا کیا کرے

۔ (۱۰۱۷۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَفَّارَۃُ الذَّنْبِ النَّدَامَۃُ۔)) وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ لَمْ تُذْنِبُوْا لَجَائَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ لِیَغْفِرَ لَھُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۶۲۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گناہ کا کفارہ ندامت ہے۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم گناہ نہیں کرو گے، تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو لے آئے گا، جو گناہ کرے گی اور اللہ تعالیٰ ان کو بخشے گا۔
Haidth Number: 10176
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۱۷۶) تخریج: صحیح لغیرہ، أخرجہ الطبرانی: ۱۲۷۹۴،و البزار: ۳۲۵۰ (انظر: ۲۶۲۳)

Wazahat

فوائد:… ہر انسان طبعی طور پر غلطی کے دہانے پر کھڑا ہوتا ہے اور کسی وقت بھی اس سے کسی قسم کا گناہ سرزد ہو سکتا ہے اور یقینا ایسے ہی ہو گا، انبیاء کے بعد کوئی کس و ناکس عفت و عصمت کا دعوی نہیں کر سکتا ہے، ہر امتی کسی نہ کسی انداز میں کوئی نہ کوئی ٹھوکر ضرور کھائے گا۔ ان احادیث ِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کر کے اس پراصرار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے تو بہ و استغفار کیا جائے، کیونکہیہ چیز اسے بہت پسند ہے اور اتنی پسند ہے کہ اگر ایسے لوگ ناپید ہو جائیں، کہ جن سے گناہ کا صدور ہی نہ ہوتو اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا فرما دے گا جو گناہوں کے مرتکب ہونے کے بعد بخشش طلب کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمائے گا۔ اس کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ وہ گناہوں کو پسند کرتا ہے اور گناہ گار اسے محبوب ہیں، بلکہ وہ تو بہ و انابت کو پسند فرماتا ہے اور ایسے ہی لوگ اسے محبوب ہیں اور یہی اس حدیث کا مفہوم ہے۔ قارئین کرام! انسانِ اوّل آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک کے انسان پر یہ نوبت نہیں آئی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی قوم کو فنا کر دیا ہو جو گناہ نہ کرتی ہو اور اس کی جگہ ایسے لوگ پیدا کر دیے ہوں، جو گناہ کر کے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتے ہوں اور وہ ان کو بخشتا ہو۔ کیونکہ سرے سے کوئی ایسی قوم پیدا ہی نہیں ہوئی، جو گناہ میں ملوث نہ ہوئی ہو۔ دراصل درج بالا احادیث میں اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی طلب کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر بہت زیادہ خوش ہوتا ہے جو گناہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتاہے۔ اس لیے اس حدیث سے یہ جرأت کسی کو نہیں ہونی چاہیے کہ وہ بے فکری کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کرنا شروع کر دے۔