Blog
Books
Search Hadith

اس حدیث کا بیان کہ کسی کو اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا

۔ (۱۰۱۹۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ) وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِہِ ھٰکَذَا وَاَشَارَ وَھْبٌ یَقْبِضُھَا وَیَبْسُطُھَا۔ (مسند احمد: ۸۳۱۲)

۔ (تیسری سند) اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا، وہب راوی نے وضاحت کرتے ہوئے ہاتھ کو بند کیا اور کھولا۔
Haidth Number: 10198
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۱۹۸) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الأول

Wazahat

فوائد:… راہِ صواب پر چلو، میانہ روی اختیار کرو، دن کے شروع میں کچھ چل لو، دن کے آخر میں کچھ چل لو اور کچھ رات کو، اور میانہ روی اختیار کرو، اعتدال کو اپناؤ، اپنے مقصد کو پا لو گے۔ اس جملے کا معنییہ ہے کہ کثرتِ عبادت کی بجائے ان اوقات میں عبادت کی کچھ مقدار پر ہمیشگی اختیار کی جائے، تاکہ بوریت اور اکتاہٹ بھی نہ ہو اور احکامِ اسلام پر عمل بھی ہوتا رہے۔ اصل میں اس جملے کے ذریعے مسافر کو سفر جاری رکھنے کا ایک انداز بتلایا گیا کہ وہ اپنا سفر دن رات جاری نہ رکھے، وگرنہ عاجز آجائے گا اور منزل مقصدتک نہیں پہنچ پائے گا، اسے چاہیے کہ صبح کے وقت، شام کے وقت اور اسی طرح رات کو کچھ وقت اپنا سفر جاری رکھا کرے، کیونکہیہ پھرتی اور چستی کے اوقات ہوتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان بھی آخرت تک پہنچنے کے لیے سفر کر رہا ہے، اسے چاہیے کہ اچھے سفر کے لیے اپنی عبادات کے لیے ایسے اوقات کا تعین کرے، جن میں وہ ہشاش بشاش ہو، اور ان عبادات کا تعین رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کر دیا ہے، ہمیں ان پر کاربند رہنا چاہیے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے بڑے حکیم اور دانا تھے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک طرف آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فرما دیا کہ کوئی شخص اپنے نیک اعمال کے بل بوتے پر جنت میں نہیں جا سکتا، جبکہ دوسری طرف آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عمل کرنے کا حکم بھی دے رہے ہیں۔ حقیقت میں ان دو امور میں کوئی تضاد نہیں ہے، بلا شک و شبہ جنت میں داخل ہونے کا سبب اعمالِ صالحہ ہیں اور داخلہ صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہو گا، مزید تفصیل امام صاحب کے کلام میں پیش کی جاتی ہے۔ شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: بعض لوگ اشکال میں پڑ گئے اور اس حدیث کو درج ذیل آیت کے مخالف گمان کرنے لگے: {وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ اَوْرَثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ} (سورۂ زخرف: ۷۲) … تم لوگوں کو اس جنت کا وارث بنا دیا گیا ہے، اس وجہ سے کہ جو تم عمل کرتے تھے۔ اس موضوع پر دلالت کرنے والی کئی آیات و احادیث پائی جاتی ہیں۔ اس تضاد کو دور کرنے کے لیے مختلف جوابات دیے گئے ہیں، سب سے بہتر جمع و تطبیقیہ ہے کہ ((لَاتَدْخُلُ الْجَنَّۃَ بِعَمَلٍ)) جیسی مذکورہ بالا احادیث میں باء الثمنیۃ ہے اور درج بالا آیت میں باء السببیۃ ہے۔ یعنی اعمالِ صالحہ جنت میں داخل ہونے کا سبب ضرور ہیں، لیکنیہ جنت اور اس کی نعمتوں اور اس کے درجات کی قیمت نہیں ہیں۔ امام ابن تیمیہ نے کہا: اسی لیے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسباب کو سب کچھ سمجھ لینا شرک ہے، اسباب کو سرے سے ختم کر دینا عقل کے ناقص ہونے کی علامت ہے اور اسباب سے کلی طور پر اعراض کرنے سے شریعت پر طعن لازم آتا ہے۔ صرف اسباب، مسبَّب کے حصول کے لیے کافی نہیں ہیں، اگر دیکھا جائے تو بارش کا نازل ہونا اور بیج کا کاشت کر دینا کھیتی کے لیے بہت بڑے اسباب ہیں، لیکن در حقیقتیہ کافی نہیں ہیں، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مفید ہواؤں کا چلنا، دوسری تمام شرائط کا پایا جانا اور موانع کی نفی ہونا ضروری امور ہیں۔ یہ سارا کچھ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور قضا سے ہو گا ایک اور مثال سمجھیں کہ بچے کی ولادت کے لیےیہ کافی نہیں ہے کہ خاوند اپنی بیوی سے جماع کرے، کیونکہ ایسے بے شمار واقعات ہے کہ جماع کے باوجود بچے کی پیدائش نہ ہو سکی، کیونکہ اس سبب کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی مشیت ضروری ہے کہ عورت کو حمل ہو، بچہ رحم میں پرورش پائے اور اس کی تخلیق کے سارے مراحل طے پائیں اور اس کے ساتھ ساتھ کوئی مانع بھی نہ ہو۔ یہی معاملہ آخرت کا ہے، سعادت مند بننے کے لیے اعمال کافی نہیں ہیں، ہاں یہ سبب ضرور ہیں،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اُدْخُلُوْا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ} (سورۂ نحل: ۳۲) … جنت میں داخل ہو جاؤ، سبب یہ ہے کہ تم عمل کرتے تھے۔ یہ باء السبب ہے، یعنی اعمال صالحہ جنت میں داخل کرنے کا سبب ہیں، اور جن احادیث میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فرمایا کہ کوئی آدمی اپنے عمل کے بل بوتے میں جنت میں داخل نہیں ہو سکتا، ان میں بائ مقابلہ کے لیے آئی ہے، یعنی ہمارے اعمال جنت میں داخل ہونے کا عوض یا قیمت نہیں ہیں، بلکہ اعمالِ صالحہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی معافی، رحمت اور فضل ضروری ہے، کیونکہ اس کی معافی کی وجہ سے برائیاں مٹ جائیں گی، اس کی رحمت سے خیر و بھلائی آئے گی اور اس کے فضل کی وجہ سے درجات بلند ہوں گے۔ اس مقام پر لوگوں میں دو فرقے گمراہ ہو گئے ہیں: ۱۔ ایک فریق نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان لانے کو حصولِ مقصود کے لیے کافی سمجھ لیا اور اسباب ِ شرعیہ اور اعمالِ صالحہ سے مکمل اعراض کر لیا۔ ان کے اس عقیدے کا نتیجہیہ نکلتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتب، رسل اور دین کا کفر کرنے پر اتر آتے ہیں۔ ۲۔ دوسرا فریق عمل کرکے اللہ تعالیٰ سے یوں اجر وثواب طلب کرتا ہے، جیسے مزدور اپنی مزدوری پوری کرنے کے بعد مالک سے اجرت طلب کرتا ہے، یعنی ان لوگوں کو اپنے عمل اور قوت پر حد سے زیادہ اعتماد ہوتا ہے، یہ لوگ بھی جاہل اور گمراہ ہیں۔ ان کو سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی تعمیل میں ہماری اپنی خیر و بھلائی پنہاں ہے، نہ کہ اس کا کوئی ذاتی فائدہ، جیساکہ حدیث ِ قدسی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے بندو! تم مجھے نقصان دے سکتے ہو نہ نفع۔ بادشاہ اپنی ذاتی حاجت و ضرورت کی وجہ سے اپنے ماتحت لوگوں کو حکم دیتا ہے اور وہ اپنی ذاتی قوت کی بنا پر اس کا مطالبہ پورا کر کے اجرت کے مستحق ٹھہرتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ جہان والوں سے غنی ہے، نیکی و بھلائی کے امور سر انجام دینے کی قوتیں اس نے عطا کی ہیں۔ نیکی کرنے والا اپنا ہی فائدہ کرتا ہے اور برائی کرنے والا اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ ابن تیمیہ کا کلام ختم ہوا جو (مجموعۃ الفتاوی: ۸/ ۷۰۔ ۷۱) سے نقل کیا گیا، اسی قسم کا کلام علامہ ابن قیم نے (مفتاح دار السعادۃ: صـ ۹۔ ۱۰) میں اور مقریزی نے (تجرید التوحید المفید: صـ۳۶۔ ۴۳) میں پیش کیا ہے۔ (صحیحہ: ۲۶۰۲) امام نووی نے اس باب کی حدیث اور عمل والی آیات کے بارے کہا: سرے سے ان احادیث اور آیات میں کوئی تعارض نہیں ہے، آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اعمال کی وجہ سے جنت میں داخلہ نصیب ہو گا۔ لیکن نیک اعمال، ہدایت اور اخلاص کی توفیق اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سے ہوتی ہے، لہٰذا یہ بات صحیح ہے کہ اس کامیابی کا انحصار صرف اعمال پر نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا شامل حال ہونا ضروری ہے۔ واللہ اعلم۔