Blog
Books
Search Hadith

جنوں کی تخلیق اور ان سے متعلقہ دوسرے امور کا بیان

۔ (۱۰۲۷۷)۔ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، و قَالَ ابْنُ نُمَیْرٍ فِیْ حَدِیْثِہِ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ اَیِسَ اَنْ یَعْبُدَہُ الْمُصَلُّوْنَ، وَلٰکِنْ فِیْ التَّحْرِیْشِ بَیْنَھُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۴۴۱۹)

۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شیطان اس بات سے نا امید ہو چکا ہے کہ جزیرۂ عرب میں نمازی(یعنی مسلمان) اس کی عبادت کریں، لیکن وہ انھیں (لڑائی، جھگڑے اور جنگ و جدل کے) فساد پر آمادہ کرتا رہے گا۔
Haidth Number: 10277
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۲۷۷) تخریج: أخرجہ مسلم: ۲۸۱۲(انظر: ۱۴۳۶۶)

Wazahat

فوائد:… بعض شارحین نے کہا: حدیث ِ مبارکہ کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ شیطان اس بات سے ناامید ہو چکا ہے کہ جزیرۂ عرب میں کوئی مؤمن مرتد ہو کر بتوں کی پوجا پاٹ کرنا شروع کر دے اور اپنے شرک کی طرف پلٹ جائے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ مسیلمہ کے اصحاب اور مانعینِزکوۃ وغیرہ مرتد ہو گئے تھے، تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ انھوں نے کسی بت کی عبادت نہیں کی تھی۔ لیکن ملا علی قاری نے کہا: اس حدیث سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ شیطان کی دعوت عام ہے، جو کفر کی تمام انواع پر مشتمل ہے اور صرف بتوں کی عبادت کے ساتھ خاص نہیں ہے، زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس حدیث کو اس مفہوم پر محمول کیا جائے کہ نمازی لوگ نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ شیطان کی عبادت نہیں کریں گے، جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے کیا تھا۔ (دیکھیں: تحفۃ الاحوذی: ۳/ ۱۲۷) اس حدیث کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد سے پہلے شیطان جزیرۂ عرب میں غالب تھا اور شرک و بدعت عام تھے، دوبارہ وہ اس طرح کا غلبہ نہیں پا سکے گا۔