Blog
Books
Search Hadith

جنوں کی تخلیق اور ان سے متعلقہ دوسرے امور کا بیان

۔ (۱۰۲۷۸)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تُرْسِلُوْا فَوَاشِیَکُمْ وَ صِبْیَانَکُمْ اِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ، حَتّٰی تَذْھَبَ فَحْمَۃُ الْعِشَائِ، فَاِنَّ الشَّیْطَانَیُُبْعَثُ اِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ، حَتّٰی تَذْھَبَ فَحْمَۃُ الْعِشَائِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۳۹۴)

۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب سورج غروب ہو جائے تو اپنے مویشیوں اور بچوں کو باہر نہ بھیجا کرو، یہاں تک کہ رات کاابتدائی اندھیرا ختم ہو جائے، کیونکہ غروب آفتاب کے بعد شیطانوں کو بھیجا جاتا ہے، یہاں تک کہ رات کا ابتدائی اندھیرا ختم ہو جاتا ہے۔
Haidth Number: 10278
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۲۷۸) تخریج: أخرجہ مسلم: ۲۰۱۳ (انظر: ۱۴۳۴۲)

Wazahat

فوائد:… اس میں بچوں کی روحانی حفاظت کی تلقین کی گئی ہے، جو والدین کی سب سے اہم ذمہ داری ہے، لیکن آج کل ہر باپ کا ہدف عصری تعلیم کا حصول ہے، والدین اور خاندانوں کے سربراہان بچوں کی روحانی تربیت سے غافل ہیں۔ نماز، تلاوت ِ قرآن، ذکر اذکار، سونے اور بیدار ہونے کی دعائیں، کھانے پینے کے آداب اور حسن اخلاق کے سلسلے میں ان کی کوئی نگرانی نہیں کی جاتی۔ ایسے والدین تو عنقا بن چکے ہیں جو کہیں کہ بیٹا! پانی پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھو، بیٹھ کر پیو، دائیں ہاتھ سے پیو، تین سانس لو اور برتن کے اندر سانس نہ لو، کیونکہیہ ہمارے پیارے نبی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پاکیزہ تعلیمات ہیں۔ بس ہر ایک باپ کییہی تمنا ہے کہ اس کا بچہ تہذیب ِ نو اور جدّت پرستی میں ڈھلا ہوا ہو، جدید علوم و معارف سے آراستہ ہو، اعلی عہدے پر فائز ہو، کم سنی میں ہی انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتا ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔ قارئین کرام! آپ کی تمناؤں میں کوئی قباحت نہیں، لیکن اگر یہی خواہشات بچوں کا مقصودِ زندگی بنا دی جائیں تو کسی پہلو میں خیر نہیں رہتی۔ نیزاس حدیث کا اہم تقاضا یہ ہے کہ غروب ِ آفتاب کے وقت بچوں کو گھر میں بحفاظت رکھا جائے، تاکہ وہ شیطانوں کے شرّ سے محفوظ رہ سکیں اور ان کی روح متأثر نہ ہو، لیکن آج کل دیکھایہ گیا ہے کہ اس وقت بچے گلیوں، سڑکوں اور میدانوں میں کھیل رہے ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ اس دور کے بچوں میں خیر و بھلائی کے معدوم ہونے کییہی وجہ ہو۔