Blog
Books
Search Hadith

ارواح، آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی تخلیق کا بیان

۔ (۱۰۲۹۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((خَلَقَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہِ، طُوْلُہُ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَہُ، قَالَ لَہُ: اذْھَبْ فَسَلِّمْ عَلٰی اُوْلٰئِکَ النَّفَرِ، وَھُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ جُلُوْسٌ، وَاسْتَمِعْ مَا یُجِیْبُوْنَکَ، فَاِنَّھَا تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ ذُرِّیَّتِکَ، قَالَ: فَذَھَبَ فَقَالَ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ، فَقَالُوْا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ، فَزَادُوْا رَحْمَۃَ اللّٰہِ، قَالَ: فَکُلُّ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ آدَمَ وَطُوْلُہُ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا، فَلَمْ یَزَلْیَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّی الْآنَ۔)) (مسند احمد: ۸۱۵۶)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان کی صورت پر پیدا کیا، ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی تخلیق کی تو فرمایا: جاؤ اور فرشتوں کی بیٹھی ہوئی اُس جماعت کو سلام کہو اور غور سے سنو کہ وہ آپ کو جوابًا کیا کہتے ہیں، کیونکہیہی (جملے) آپ اور آپ کی اولاد کا سلام ہوں گے۔ ( وہ گئے اور) کہا: السلام علیکم۔ انھوں نے جواب میں کہا: السلام علیک ورحمۃ اللہ۔ یعنی ورحمۃ اللہ کے الفاظ زائد کہے۔ جب کوئی بھی آدمی جنت میں داخل ہو گا وہ آدم علیہ السلام کی صورت (وجسامت) پر داخل ہو گا۔ لیکن (دنیا میں ولادتِ آدم سے) آج تک قد و قامت میں کمی آتی رہی۔
Haidth Number: 10295
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۲۹۵) تخریج: أخرجہ البخاری: ۳۳۲۶، ۶۲۲۷، ومسلم: ۲۸۴۱ (انظر: ۸۱۷۱)

Wazahat

فوائد:… انسان کا اصل قد ساٹھ ہاتھ ہے اور ہر جنتی کا یہی قد ہو گا، آہستہ آہستہ قد و قامت میں کمی آتی رہی، یہاں تک کہ اب لوگوں نے چھ سات فٹ قد کو بہت خوبصورت سمجھ لیا اور بہت طویل قد والے معیوب سمجھے جانے لگ گئے، دراصل انسان کی فطرت ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتی ہے۔ اسلام میں سلام کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے، اس کی ابتدا آدم علیہ السلام سے ہوئی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلام کو عام کرنے کا حکم دیا ہے۔ شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: یہ روایت ان لوگوں کے قول کی تائید کرتی ہے، جو لفظِ آدم کو ہ ضمیر کا مرجع بناتے ہیں، اس حدیث کا مفہوم یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جس ہیئت پر پیدا کیا تھا، اسی پر ان کو وجود بخشا، یعنی ان کو اپنی اولاد کی طرح نہ اپنی تخلیق کے دوران مختلف احوال سے گزرنا پڑا اور نہ رحموں میں پہلے نفطہ، پھر علقہ، پھر مضغہ، پھر عظام اور لحم اور خلق تامّ جیسے مراحل طے کرنا پڑے، بلکہ جونہی اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی تو ان کو کامل و مکمل، معتدل و مناست اور ٹھیک و درست بنا دیا۔امام ابن حبان ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اس حدیث پر مفصّل اور مفید گفتگو کی ہے، آپ اس کا مراجعہ کر لیں۔ (صحیحہ: ۴۴۹)