Blog
Books
Search Hadith

اللہ تعالیٰ کے فرمان {وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ}کابیان

۔ (۱۰۳۰۴)۔ عَنْ رُفَیْعٍٍ اَبِیْ الْعَالِیَۃَ، عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ} قَالَ: جَمَعَھُمْ فَجَعَلَھُمْ اَرْوَاحًا ثُمَّ صَوَّرَھُمْ فَاسْتَنْطَقَھُمْ فَتَکَلَّمُوْا، ثُمَّ اَخَذَ عَلَیْھِمُ الْعَھْدَ وَالْمِیْثَاقَ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالَ: فَاِنِّیْ اُشْھِدُ عَلَیْکُمُ السَّمٰوٰتِ السَّبْعَ وَالْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ، وَاُشْھِدُ عَلَیْکُمْ اَبَاکُمْ آدَمَ عَلَیْہِ السُّلَامُ، اَنْ تَقُوْلُوْایَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَمْ نَعْلَمْ بِھٰذَا، اِعْلَمُوْا اَنَّہُ لَا اِلٰہَ غَیْرِیْ وَلَا رَبَّ غَیْرِیْ، فَـلَا تُشْرِکُوْا بِیْ شَیْئًا، اِنِّیْ سَاُرْسِلُ اِلَیْکُمْ رُسُلِیْیُذَکِّرُوْنَکُمْ عَھْدِیْ وَمِیْثَاقِیْ، وَاُنْزِلُ عَلَیْکُمْ کُتُبِیْ، قَالُوْا: شَھِدْنَا بِاَنَّکَ رَبُّنَا وَ اِلٰھُنَا لَا رَبَّ لَنَا غَیْرُکَ، فَاَقَرُّوْا بِذٰلِکَ، وَ رَفَعَ اِلَیْھِمْ آدَمَ یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ فَرَاَی الْغَنِیَّ وَالْفَقِیْرَ وَحُسْنَ الصُّوْرَۃِ وَدُوْنَ ذٰلِکَ، فَقَالَ: رَبِّ! لَوْ لَا سَوَّیْتَ بَیْنَ عِبَادِکَ؟ قَالَ: اِنِّیْ اَحْبَبْتُ اَنْ اُشْکَرَ، وَرَاَی الْاِنْبِیَائَ فِیْھِمْ مِثْلَ السُّرُجِ عَلَیْھِمُ النُّوْرُ، خُصُّوْا بِمِیْثَاقٍ آخَرَ فِیْ الرِّسَالَۃِ وَالنَّبُوَّۃِ، وَھُوَ قَوْلُہُ تَعَالٰی: {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَھُمْ} اِلٰی قَوْلِہِ {عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ} کَانَ فِیْ تِلْکَ الْاَرْوَاحِ فَاَرْسَلَہُ اِلٰی مَرْیَمَ، فَحَدَّثَ عَنْ اُبَیٍّ اَنَّہُ دَخَلَ مِنْ فِیْھَا۔ (مسند احمد: ۲۱۵۵۲)

۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں کہتے ہیں: اور جب تیرے پروردگار نے بنوآدم کی پشتوں یعنی ان کی اولاد سے پختہ عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بنایا اس کی تفصیلیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جمع کیا، ان کو روحیں بنایا، پھر ان کی تصویریں بنائیں اور ان کو بولنے کی طاقت دی، پس انھوں نے کلام کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے پختہ عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بناتے ہوئے کہا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ میں ساتوں آسمانوں، ساتوں زمینوں اور تمہارے باپ کو تم پر گواہ بناتا ہوں، تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہمیں اس چیز کا کوئی علم نہ تھا، تم اچھی طرح جان لو کہ میرے علاوہ نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی ربّ، پس میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا، میں عنقریب تمہاری طرف اپنے رسول بھیجوں گا، وہ تم کو میرا عہد یاد کرائیں گے، نیز میں تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا، انھوں نے کہا: ہم یہ شہادت دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا ربّ اور معبود ہے، تیرے علاوہ ہمارا کوئی ربّ نہیں ہے، پس ان سب نے اقرار کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان پر بلند کیا، انھوں نے ان میں غنی، فقیر، حسین اور کم خوبصورت افراد دیکھے اور کہا: اے میرے ربّ! تو نے ان کے درمیان برابری کیوں نہیں کی؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ میرا شکریہ ادا کیا جائے، نیز انھوں نے ان میں انبیاء دیکھے، وہ چراغوں کی طرح نظر آ رہے تھے اور ان پر نور تھا، ان کو رسالت اور نبوت کے عہد و میثاق کے ساتھ خاص کیا گیا، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں اسی چیز کا ذکر ہے: اور جب ہم نے نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا …… عیسی بن مریم۔ عیسی علیہ السلام بھی ان ہی ارواح میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ اس روح کو سیدہ مریم علیہا السلام کی طرف بھیجا اور وہ ان کے منہ سے ان میں داخل ہو گئی۔
Haidth Number: 10304
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۳۰۴) تخریج: اثر ضعیف، محمد بن یعقوب الربالی مستور، أخرجہ الحاکم: ۲/ ۳۲۳، والبیھقی فی الاسماء والصفات : ص ۳۶۸ (انظر: ۲۱۲۳۲)

Wazahat

فوائد:… درج بالا اور اس موضوع کی دیگر احادیث میں عَھْدِ اَلَسْتُ کا ذکر ہے، یہ ترکیب آیت کے ان الفاظ {اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ} سے بنائی گئی ہے، یہ عہد آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد ان کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد سے لیا گیا، پوری آیاتیوں ہیں: {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلٰی شَہِدْنَآ أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غَافِلِیْنَ۔ أَوْ تَقُوْلُوآ اِنَّمَا أَشْرَکَ آبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ۔}… اور جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔ یایوں کہو کہ پہلے پہل یہ شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا۔ (سورۂ اعراف: ۱۷۲، ۱۷۳) یہ عہد ہم اس لیے تسلیم کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے اس کی اطلاع دے دی ہے، بہرحال اس کا اثر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کییہ گواہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کر دی گئی ہے اور اگر یہ فطرت مختلف آلائشوں کی وجہ سے اپنی حیثیت کھو نہ بیٹھی ہو تو ایسا انسان خارجی آوازاور باطنی فکر مل جانے کی وجہ سے فوراً حق کی آواز کو قبول کرتا ہے، لیکن اگر شرک و بدعت یا گندے معاشرے کی وجہ سے وہ فطرت متأثر ہو چکی ہو تو اس کو حق تسلیم کرنے میں اجنبیت محسوس ہوتی ہے اور اس کے لیےیہ مرحلہ مشکل ہو جاتا ہے، جلد اور بدیر اسلام قبول کرنے والے صحابۂ کرام کی وجہ یہی تھی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی مفہوم کو ان الفاظ میں بیان کیا: ((کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ کَمَثَلِ الْبَہِیمَۃِ تُنْتَجُ الْبَہِیمَۃَ ہَلْ تَرَی فِیہَا جَدْعَاء َ۔)) … ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے ماں باپ اس کو یہودییا نصرانییا مجوسی بنا دیتے ہیں، جس طرح جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے، اس کا ناک، کان کٹا نہیں ہوتا۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)