Blog
Books
Search Hadith

آدم علیہ السلام کی خطا کے سبب، ان کے جنت سے نکلنے اور ان کی نبوت کی دلیل کا بیان

۔ (۱۰۳۱۰)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ الْبَاھِلِیِّ، اَنَّ اَبَا ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قُلْتُ: یَانَبِیَّ اللّٰہِ! فَاَیُّ الْاَنْبِیَائِ کَانَ اَوَّلُ؟ قَالَ: ((آدَمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَانَبِیَّ اللّٰہِ! اَوَ نَبِیٌّ کَانَ آدَمَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ،نَبِیٌّ مُکَلَّمٌ، خَلَقَہُ اللّٰہُ بِیَدِہِ، ثُمَّ نَفَخَ فِیْہِ رُوْحَہُ ثُمَّ قَالَ لَہُ: یَاآدَمُ قُبُلًا۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۴۴)

۔ سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! انبیاء میں سب سے پہلا نبی کون تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ نبی تھے، ان سے کلام کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، پھر ان میں اپنی روح پھونکی اور ان کو آمنے سامنے کہا: اے آدم۔
Haidth Number: 10310
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۳۱۰) تخریج: اسنادہ ضعیف جدا من اجل علی بن یزید، أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۸۷۷۱، وابن حبان: ۶۱۹۰ (انظر: ۲۲۲۸۸)

Wazahat

فوائد:… شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اس موضوع سے متعلقہ درج دو احادیث کو شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے: سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے کہا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَنَبِيٌّکَانَ آدَمَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ، مُعَلَّمٌ، مُکَلَّمٌ۔)) قَالَ: کَمْ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ نُوْحٍ؟ قَالَ: ((عَشْرَۃُ قُرُوْنٍ۔)) قَالَ: کَمْ کَانَ بَیْنَ نُوْحٍ وَاِبْرَاھِیْمَ؟ قَالَ: ((عَشْرَۃُ قُرُوْنٍ۔)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کَمْ کَانَتِ الرُّسُلُ؟ قَالَ: ((ثَلَاثُ مِئَۃٍ وَخَمْسَۃَ عَشَرَ، جَمًّا غَفِیْرًا۔)) … اے اللہ کے رسول! کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ تعلیم دیے گئے تھے اور ان سے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) کلام بھی کیا گیا تھا۔ اس نے کہا: ان کے اور نوح علیہ السلام کے مابین کتنی مدت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’دس صدیاں (یا دس زمانے)۔ اس نے کہا: نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کے درمیان کتنی مدت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دس صدیاں۔ پھر صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کل کتنے رسول ہو گزرے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین سو پندرہ ، جم غفیرہے۔ (حاکم: ۲/ ۲۶۲، معجم کبیر لطبرانی: ۸/ ۱۳۹، صحیحہ: ۳۲۸۹) شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اس حدیث کا ایک موقوف شاہد ذکر کرتے ہوئے کہا: سیدنا عبد اللہ بن عباس نے کہا: نوح اور آدم کے مابین دس صدیاں تھیں، سارے لوگ شریعت ِ حقہ پر تھے، پھر اختلاف پڑ گیا، پس اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو بھیجنا شروع کیا، تاکہ وہ خوشخبریاں دیں اور ڈرائیں، عبد اللہ بن مسعود کی قراء ت یوں تھی: {کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا} (تفسیرطبری: ۲/ ۱۹۴، حاکم: ۲/ ۵۴۶) اس میں ایک اہم فائدے کا بیان ہے کہ لوگ شروع میں ایک امت تھے، خالص توحید ان کا مذہب تھا، پھر بعد میں ان پر شرک کے آثار طاری ہوئے۔ اس سے ان فلسفیوں اور ملحدوں کا ردّ ہوتا ہے، جو کہتے ہیں کہ اصل میں شرک تھا، بعد میں توحید کو وجود ملا۔ (صحیحہ: ۳۲۸۹) سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَنَبِیًّا کَانَ آدَمُ؟ قَالَ: ((نَعَمْ مُکَلَّمٌ۔)) قَالَ: کَمْ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ نُوْحٍ؟ قَالَ: ((عَشْرَۃُ قُرُوْنٍ۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَمْ کَانَتِ الرُّسُلُ؟ قَاَل: ((ثَلَاثُ مِئَۃٍ وَّخَمَسْۃَ عَشَرَ۔)) … اے اللہ کے رسول! کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، ان سے کلام بھی کیا گیا تھا ۔ اس نے کہا: ان کے اور نوح علیہ السلام کے درمیان کتنی مدت تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دس صدیاں۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کل کتنے رسول تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین سو پندرہ۔ (صحیح ابن حبان: ۲۰۸۵، حاکم: ۲/ ۲۶۲، صحیحہ:۲۶۶۸) شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے شواہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طویل حدیث کا ایک اقتباس یہ ہے: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! پہلا نبی کون تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا آدم نبی تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاںہاں، وہ نبی تھے، جن سے کلام بھی کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور پھر ان میں اپنی روح پھونکی، پھر ان سے کہا: آدم! پتلا بن جا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! انبیا کی تعداد کتنی تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی تھے، ان میں رسولوں کی تعداد (۳۱۵) تھی، جم غفیر ہے۔ (احمد: ۵/ ۲۶۵)