Blog
Books
Search Hadith

آدم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے جھگڑے کا بیان

۔ (۱۰۳۱۲)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِحْتَجَّ آدَمُ وَ مُوْسٰی عَلَیْھِمَا السَّلَامُ فَقَالَ: مُوْسٰی: یَا آدَمُ! اَنْتَ اَبُوْنَا خَیَّبْتَنَا وَ اَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّۃِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: اَنْتَ آدَمُ الَّذِیْاَخْرَجَتْکَ خَطِیْئَتُکَ مِنَ الْجَنَّۃِ) فَقَالَ لَہُ آدَمُ: یَا مُوْسٰی اَنْتَ الَّذِیْ اصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِکَلَامِہِ، وَقَالَ مَرَّۃً: بِرِسَالَتِہِ وَخَطَّ لَکَ بِیَدِہِ اَتَلُوْمُنِیْ عَلٰی اَمْرٍ قَدَّرَہُ اللّٰہُ عَلَیَّ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَنِیْبِاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً؟ قَالَ: حَجَّ آدَمُ مُوْسٰی حَجَّ آدَمُ مُوْسٰی۔)) (مسند احمد: ۷۳۸۱)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام نے ایک دوسرے پر اعتراض کیے، موسی علیہ السلام نے کہا: اے آدم! تم ہمارے باپ ہو، لیکن تم نے ہمیں ناکام کر دیا اور جنت سے نکال دیا، ایک روایت میں ہے: تم وہی آدم ہو، جس کو اس کی غلطی نے جنت سے نکال دیا، آگے سے آدم علیہ السلام نے کہا: اے موسی! تم وہی موسی ہو، جس کو اللہ تعالیٰ اپنے کلام اور اپنی رسالت کے ساتھ منتخب کیا اور تیرے لیے اپنے ہاتھ سے لکھا، کیا تو مجھے اس بات پر ملامت کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے چالیس برس پہلے میرے حق میں لکھ دی تھی، پس آدم علیہ السلام ، موسی علیہ السلام پر غالب آگئے۔
Haidth Number: 10312
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۳۱۲) تخریج: أخرجہ البخاری: ۶۶۱۴، ومسلم: ۲۶۵۲ (انظر: ۷۳۸۷)

Wazahat

فوائد:… یہاں چند گزارشات کو بیان کرنا ضروری ہے: کسی آدمی کو تقدیر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے ہاں معذور نہیں سمجھا جائے گا، اللہ تعالیٰ کے ہاں مؤاخذہ کرنے کے اور معاف کرنے کے قوانین الگ ہیں اور لوگوں میں کون ہے کہ جس کو تھپڑ لگے یا اس کا کوئی اور نقصان ہو جائے اور وہ اس بنا پر معاف کر دے کہ چلو یہ تھپڑ میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا۔ اگر کسی سے کوئی برائی ہو جائے اور پھر اس برائی کی وجہ سے اس کا نقصان بھی ہو جائے تو ایسے شخص کو اس کی برائی کی بنا پر طعنہ مارنا اور اس کی مذمت کرنا شرعا درست نہیں ہے، بالخصوص اس وقت کہ جب وہ توبہ تائب بھی ہو چکا ہو ۔ آدم علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کو جو جواب دیا، وہ جواب الزامی تھا، بہرحال ان دونوں انبیاء کی بحث توعالم برزخ میں ہو رہی تھی، جو سرے سے تکلیف کا عالَم ہی نہیں ہے، اس لیے اس سلسلے میں کسی ایک پر بھی ملامت نہیں کی جا سکتی۔