Blog
Books
Search Hadith

انبیاء و رسل کی تعداد اور ان سے متعلقہ دوسرے امور کا بیان (انبیائے کرام کے انساب کا بیان)

۔ (۱۰۳۱۷)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ الْبَاھْلِیِّ، قَالَ: قَالَ اَبُوْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کَمْ وَفّٰی عِدَّۃُ الْاَنْبِیَائِ؟ قَالَ: ((مِائَۃُ اَلْفٍ وَ اَرْبَعَۃٌ وَ عِشْرُوْنَ اَلْفًا، اَلرُّسُلُ مِنْ ذٰلِکَ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَخَمْسَۃَ عَشَرَ جَمًّا غَفِیْرًا (وَفِیْ لَفْظٍ) ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَبِضْعَۃَ عَشَرَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۴۴)

۔ سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! انبیاء کی تعداد کتنی تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک لاکھ، چوبیس ہزار، ان میں تین سو پندرہ رسول تھے، جم غفیر تھا۔ ایک روایت میں ہے: ان میں تین سو چودہ پندرہ رسول تھے۔
Haidth Number: 10317
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۳۱۷) تخریج: صحیح لغیرہ، قالہ الالبانی فی صحیحتہ، أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۷۸۷۱، وابن حبان: ۶۱۹۰، والحاکم: ۲/ ۲۶۲ (انظر: ۲۲۲۸۸)

Wazahat

فوائد:… شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: یہ اور دوسری احادیث دلالت کرتی ہیں کہ رسول اور نبی میں فرق ہے، قرآن مجید کی آیت بھی اس فرق پر دلالت کرتی ہے: {وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰٓی اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓاُمْنِیَّتِہٖ } (سورۂ حج: ۵۲) … اور ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجا نہ نبی، مگر اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا تو شیطان نے اس کی آواز میں کچھ ملا دیا۔ ابن جریر طبری سے لے کر علامہ آلوسی تک کے عام مفسرین کا یہی مسلک ہے، امام ابن تیمیہ نے (المجموع: ۰۱/ ۲۹۰، ۱۸/۷) میں کئی مقامات میں کہا ہے: کل رسول نبی و لیس کل نبی رسولا۔ (ہر رسول نبی تو ہے، لیکن ہر نبی رسول نہیں۔)امام قرطبی (۱۲/۸۰) نے کہا: مہدوی نے کہا: یہی رائے صحیح ہے کہ ہر رسول نبی ہے، لیکن ہر نبی رسول نہیں۔ قاضی عیاض نے (الشفائ) میں یہی رائے اختیار کی اور کہا: جمّ غفیر کا یہی مسلک ہے کہ ہر رسول نبی ہے، لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے، انھوں نے سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث سے استدلا ل کیا۔ اس کی مزید تائید سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اس قراء ت سے ہوتی ہے: {وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ وَلَا نَبِیٍّ وَّلَا مُحَدَّثٍ} اس میں محدث سے مراد وہ ہے کہ جس کی طرف نیند میں وحی کی جاتی ہے، کیونکہ انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔ ابو بکر انباری نے یہ قول ((الردّ)) میں ذکر کیا ہے۔ میں (البانی) کہتا ہوں: ایسی قرا ء ات سے قرآن مجید ثابت نہیں ہوتا، بہرحال اگر یہ قول سنداً صحیح ہو تو رسول اور نبی کے مابین فرق پر دلالت کرتا ہے، مفسر قرآن مجاہد ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ سے بھی فرق کا قول منقول ہے، جس کو امام سیوطی نے (الدر: ۴/۳۶۶) میں ذکر کیا ہے۔ … …۔ رسول اور نبی میں فرق کیا ہے؟ علامہ زمخشری (۳/۳۷) لکھتے ہیں: والفرق بینھما ان الرسول من الأنبیائ: من جَمَع الی المعجزۃ والکتاب المنزل علیہ۔ والنبی غیر الرسول: من لم ینزل علیہ کتاب وانما امر ان یدعو الناس الی شریعۃ من قبلہ۔… ان دو کے ما بین فرق: رسول ،انبیاء میں سے ہوتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزہ اور کتاب دونوں چیزیں دی جاتی ہیں اور نبی ، رسول کے علاوہ ہوتا ہے، اس پر کتاب نازل نہیں کی جاتی، بلکہ اسے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ سابقہ رسول کی شریعت کی طرف دعوت دے۔ امام بیضاوی نے اپنی تفسیر (۴/۵۷) میں کہا: الرسول: من بعثہ اللہ بشریعۃ مجدِّدۃیدعو الناس الیھا، والنبییعمہ، ومن بعثہ لتقریر شرع سابق، کأنبیاء بنی اسرائیل الذین کانوا بین موسی و عیسی ولذالک شبہ النبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم علماء امتہ بھم۔… رسول وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نئی شریعت دے کر بھیجے اور وہ اس کی طرف لوگوں کو دعوت دے اور نبی اس کو بھی کہتے ہیں اور اُس کو بھی جو سابقہ نبی کی شریعت کو برقرار رکھنے کے لیے بھیجا جائے، جیسے موسی اور عیسیm کے مابین آنے والے انبیاء تھے، اسی لیے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی امت کے علماء کو ان سے تشبیہ دی۔ میں (البانی) کہتا ہوں: امام بیضاوی شاید اس حدیث کی طرف اشارہ کر رہے ہوں: ((عُلَمَائُ اُمَّتِیْ کَأَنْبِیَائِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔)) … میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔ لیکنیہ حدیث سند کے اعتبار سے بے بنیاد ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر اور امام سخاوی وغیرہ نے کہا ہے اور پھر انھوں نے امام بیضاوی کی تعریف پر اعتراضات کیے، جن کا لب لباب یہ تھا کہ بیضاوی کی تعریف سے مجددۃ اور زمخشری کی تعریف سے الکتاب کے الفاظ حذف کر دیےجائیں، کیونکہ اسماعیل علیہ السلام پر کوئی کتاب نازل ہوئی نہ کوئی ایسی شریعت، جو از سرِنو ہو۔ وہ تو ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کے پیروکار تھے، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: {اِنَّہُ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلاً نَبِیًّا} (سورۂ مریم: ۵۴) … وہ (اسماعیل) وعدے کے سچے اور رسول اور نبی تھے۔ خلاصۂ کلام یہ نکلا: النبی من بعث لتقریر شرع سابق، والرسول من بعثہ اللہ بشریعۃیدعوا الناس الیھا، سواء کانت جدیدۃ او متقدمۃ۔… نبی وہ ہے جسے سابقہ شریعت کے قیام کے لیے بھیجا جائے اور رسول وہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نئییا سابقہ شریعت کو برقرار رکھنے کے لیے بھیجے اور وہ لوگوں کو اس کی طرف دعوت دے۔ واللہ اعلم۔ (صحیحہ: ۲۶۶۸)