Blog
Books
Search Hadith

اللہ کے نبی صالح علیہ السلام کا ذکر

۔ (۱۰۳۳۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَمْعَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: خَطَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرَ النَّاقَۃَ وَ ذَکَرَ الَّذِیْ عَقَرَھَا فَقَالَ: {اِذِ انْبَعَثَ اَشْقَاھَا …} اِنْبَعَثَ رَجُلٌ عَارِمٌ عَزِیْزٌ مَنِیعٌ فِیْ رَھْطِہِ مِثْلُ ابْنِ زَمْعَۃَ۔)) ثُمَّ ذَکَرَ النَّسَائَ فَوَعَظَھُمْ فِیْھِنَّ، اَلْحَدِیْثَ۔ (مسند احمد: ۱۶۳۲۴)

۔ سیدنا عبدا للہ بن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطاب کیا اور اونٹنی کا اور اس کی کونچیں کاٹنے والے کا ذکر کیا اور فرمایا: جب اس قوم کا بدبخت شخص اٹھا، … ایک خبیث، شریر، سردار اور اپنی قوم کا مطاع کھڑا ہوا، جیسے ابن زمعہ ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عورتوں کا ذکر کیا اور ان کے متعلق مردوں کو وعظ و نصیحت کی …۔
Haidth Number: 10331
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۳۳۱) تخریج: أخرجہ مسلم: ۲۸۵۵(انظر: ۱۶۲۲۳)

Wazahat

فوائد:… صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف بھیجا گیا،یہ ایک نافرمان قوم تھی، انھوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ وہ پتھر کی چٹان سے اس طرح ایک اونٹنی نکال کر دکھائے کہ وہ بھی دیکھ رہے ہوں۔ صالح نے ان سے عہد لیا کہ اس کے بعد بھی اگر ایمان نہ لائے تو وہ ہلاک کر دیے جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس معجزے کا اظہار کر دیا، لیکن باغیوں کا ایمان لانا تو درکنار، انھوں نے تو سرے سے اونٹنی کا قصہ ہی تمام کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی گرفت میں مبتلا ہو گئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰہَا اِِذِ انْبَعَثَ اَشْقٰہَا فَقَالَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ نَاقَۃَ اللّٰہِ وَسُقْیٰہَا فَکَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْہَا فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوّٰہَا ۔} (سورۂ شمس: ۱۲ تا ۱۴) … قوم ثمود نے اپنی سرکشی کے باعث جھٹلا دیا۔ جب ان کا بڑا بد بخت کھڑا ہوا۔ انہیں اللہ کے رسول نے فرما دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری کی (حفاظت کرو)۔ ان لوگوں نے اپنے پیغمبر کو جھوٹا سمجھ کر اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں۔ پس ان کے رب نے ان کے گناہوں کے باعث ان پر ہلاکت ڈالی اور پھر ہلاکت کو عام کر دیا اور اس بستی کو (نیست و نابود کر کے) برابر کر دیا۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والے بدبخت کا نام قدار بن سالف تھا، وہ اس بغا وت کی وجہ سے رئیس الاشقیاء (سب سے بڑا بدبخت) بن گیا۔ چونکہ اس شرارت میں پوری قوم شریک تھی، اس لیے اس آیت میں اس جرم کو پوری قوم کی طرف منسوب کیا گیا، وگرنہ عملی طور پر ایک شخص نے اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں۔ جنگ نہروان میں خوارج کے صرف نو آدمی بچ گئے تھے، یہ صدارت و امامت کی حیثیت رکھتے تھے، انھوں نے فارس میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے خلاف بغاوتیں اور سازشیں کیں، لیکن ناکام رہے۔ بالآخر عبد الرحمن بن ملجم مراوی، برک بن عبد اللہ تمیمی اور عمرو بن بکر تمیمی مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے اور تینوں اس رائے پر متفق ہو گئے کہ سیدناعلی، سیدنا امیر معاویہ اور سیدنا عمرو بن عاص کو قتل کر دیا جائے، انھوں نے اس ناپاک عزم کی تکمیل کے لیے۱۶ رمضان ۴۰؁ھجمعہکےدنفجرکی نماز کا تقرر کیا ۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کرنے کی ذمہ داری عبد الرحمن بن ملجم نے سنبھالی اور کوفہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچ کر اپنے دوستوں سے ملاقاتیں کیں، اس کے ہم خیالوں نے وردان نامی شخص کو ابن ملجم کی مدد کرنے کے لیے مقرر کیا، شبیب بن شجرہ بھی ان کے ساتھ تھا۔ یہ تینوں پچھلی رات مسجد کوفہ میں پہنچ گئے اور دروازے کے قریب چھپ کر بیٹھ گئے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حسب ِ عادت لوگوں کو نماز کے لیے آوازیں دیتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے وردان نے آگے بڑھ کر تلوار کا وار کیا، مگر اس کی تلوار دروازے کی چوکھٹ یا دیوار پر پڑی اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگے بڑھ گئے۔ ابن ملجم فوراً لپکا اور آپ کی پیشانی پر تلوار کا ہاتھ مارا، جو بہت کاری پڑا۔ اس زخم کے صدمہ سے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ۱۷ رمضان ۴۰ھ کوشہید ہو گئے۔ بعد میں سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابن ملجم کو قصاصاً ایک ہی وار سے قتل کر دیا۔