Blog
Books
Search Hadith

ابراہیم علیہ السلام کا شام کے شہروں کی طرف ہجرت کرنے، راستے میں مصر کے شہروں میں داخل ہونے اور سیدہ سارہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کا مصر کے بادشاہ کے ساتھ قصے کا بیان

۔ (۱۰۳۴۲)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَمْ یَکْذِبُ اِبْرَاھِیْمُ اِلَّا ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ، قَوْلُہُ حِیْنَ دُعِیَ اِلٰی آلِھَتِھِمْ : {اِنِّیْ سَقِیْمٌ} وَ قَوْلُہُ: {فَعَلَہُ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا} وَقَوْلُہُ لِسَارَۃَ: اِنَّھَا اُخْتِیْ، قَالَ: وَدَخَلَ اِبْرَاھِیْمُ قَرْیَۃً فِیْھَا مَلِکٌ مِنَ الْمُلُوْکِ اَوْ جَبَّارٌ مِنَ الْجَبَابِرَۃِ، فَقِیْلَ: دَخَلَ اِبْرَاھِیْمُ اللَّیْلَۃَ بِاِمْرَاَۃٍ مِنْ اَحْسَنِ النَّاسِ قَالَ: فَاَرْسَلَ اِلَیْہِ الْمَلِکُ اَوِ الْجَبَّارُ: مَنْ ھٰذِہِ مَعَکَ؟ قَالَ: اُخْتِیْ قَالَ: اَرْسِلْ بِھَا، قَالَ: فَاَرْسَلَ بِھَا اِلَیْہِ قَالَ لَھَا: لَا تُکَذِّبِیْ قَوْلِیْ فَاِنِّیْ اَخْبَرْتُہُ اَنَّکِ اُخْتِیْ اِنْ عَلَی الْاَرْضِ مُؤْمِنٌ غَیْرِیْ وَغَیْرُکِ، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَتْ اِلَیْہِ قَامَ اِلَیْھا، قَالَ: فَاَقْبَلَتْ تَوَضَّاُ وَتُصَلِّیْ وَتَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنِّیْ آمَنْتُ بِکَ وَبِرَسُوْلِکَ وَاَحْصَنْتُ فَرْجِیْ اِلَّا عَلٰی زَوْجِیْ فَـلَا تُسَلِّطْ عَلَیَّ الْکَافِرَ، قَالَ: فَغُطَّ حَتّٰی رَکَضَ بِرِجْلِہِ، قَالَ اَبُوْالزِّنَادِ: قَالَ اَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّھَا قَالَتْ: اَللّٰھُمَّ اِنْ یَمُتْیُقَلْ ھِیَ قَتَلَتْہُ، قَالَ: فَاُرْسِلَ ثُمَّ قَامَ اِلَیْھا، فَقَامَتْ تَوَضَّاُ وَتُصَلِّیْ وَ تَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنِّیْ آمَنْتُ بِکَ وَ بِرَسُوْلِکَ وَ اَحْصَنْتُ فَرْجِیْ اِلَّا عَلٰی زَوْجِیْ فَـلَا تُسَلِّطْ عَلَیَّ الْکَافِرَ، قَالَ: فَغُطَّ حَتّٰی رَکَضَ بِرِجْلِہِ، قَالَ اَبُوْ الزِّنَادِ: قَالَ اَبُوْ سَلَمَۃَ : عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَانھا قَالَتْ: اَللّٰھُمَّ اِنْ یَمُتْیُقَلْ اِنَّھَا قَتَلَتْہُ، قَالَ: فَاَرْسَلَ، فَقَالَ: فِیْ الثَّالِثَۃِ وَ الرَّابِعَۃِ مَا اَرْسَلْتُمْ اِلَیَّ اِلَّا شَیْطَانًا اِرْجَعُوْھَا اِلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ اَعْطُوْھَا ھَاجَرَ، قَالَ: فَرَجَعَتْ فَقَالَت لِاِبْرَاھِیْمَ: اَشَعَرْتَ اَنْ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ، رَدَّ کَیْدَ الْکَافِرِ وَ اَخْدَمَ وَلِیْدَۃً۔)) (مسند احمد: ۹۲۳۰)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے تھے، (۱) جب ان کو ان کی قوم کے باطل معبودوں کی طرف بلایا گیا تو انھوں نے کہا: میں بیمار ہوں، (۲) انھوں نے بتوں کو توڑنے کے بعد کہا: یہ کام تو ان کے بڑے نے کیا ہے اور (۳) انھوں نے اپنی بیوی سیدہ سارہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کے بارے میں کہا: بیشکیہ تو میری بہن ہے، آخری بات کی تفصیلیہ ہے: ابراہیم علیہ السلام ایک بستی میں داخل ہوئے، اس میں ایک بادشاہ یا کوئی جابر حکمران تھا، اس کو بتلایا گیا کہ آج رات ابراہیم انتہائی خوبصورت عورت کے ساتھ ہماری بستی میں داخل ہوا ہے، اس نے آپ علیہ السلام کو بلا بھیجا اور پھر پوچھا کہ یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ آپ نے کہا: یہ میرے بہن ہے، اس نے کہا: اس کو میری طرف بھیج، پس آپ نے ان کو اس طرف بھیجا اور کہا: میری بات کو جھوٹا نہ کرنا، میں اس کو بتلا چکا ہوں کہ تم میری بہن ہو (لہٰذا تم نے بھی اپنے آپ کو میری بہن ظاہر کرنا ہے)، کیونکہ زمین پر میرے اور تیرے علاوہ کوئی مؤمن نہیں ہے، پس جب سیدہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ اس پر داخل ہوئیں تو وہ ان کی طرف اٹھا، انھوں نے وضو کر کے نماز ادا کی اور کہا: اے اللہ! اگر تو میرے بارے میں جانتا ہے کہ میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور اپنے خاوند کے علاوہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو اس کافر کو مجھ پر مسلط نہ کر۔ پس اس دعا کے اثر سے اس سے دم گھٹنے کی آواز آنے لگی اور وہ پاؤں کو زمین پر مارنے لگ گیا،یہ صورتحال دیکھ کر سیدہ نے کہا: اے اللہ! اگر یہ مرگیا تو کہا جائے گا کہ اس خاتون نے اس کو قتل کر دیا ہے، پس اس کی وہ کیفیت چھٹ گئی اور وہ پھر ان کی طرف کھڑا ہوا، سیدہ نے اس بار پھر وضو کر کے نماز ادا کی اور کہا: اے اللہ! اگر تو میرے بارے میں جانتا ہے کہ میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور اپنے خاوند کے علاوہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو اس کافر کو مجھ پر مسلط نہ کر۔ اس بادشاہ کی پھر دم گھٹنے کی آواز آنے لگی اور وہ زمین پر پاؤں مارنے لگا، سیدہ نے کہا: اے اللہ! اگر یہ مر گیا تو کہا جائے گا کہ اس خاتون نے اس کو قتل کیا ہے، پس اس کیوہ کیفیت چھٹ گئی، اس نے تیسرییا چوتھی بار کہا: تم لوگوں نے تو میری طرف کوئی شیطان بھیجا ہے، اس کو ابراہیم کی طرف لوٹا دو اور اس کو ہاجر دے دو، پس وہ لوٹ آئیں اور ابراہیم علیہ السلام سے کہا: کیا آپ کو پتہ چل گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کے مکر کو ردّ کر دیا ہے اور اس نے خدمت کے لیے ایک لونڈی بھی دی ہے۔
Haidth Number: 10342
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۳۴۲) تخریج: أخرجہ مطولا و مختصرا البخاری: ۲۲۱۷، ۲۶۳۵، ۶۹۵۰، ومسلم: ۲۳۷۱(انظر: ۹۲۴۱)

Wazahat

فوائد:… ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے، بعض نا عاقبت اندیشوں نے اس حدیث ِ مبارکہ کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف منسوب کرنے سے اس وجہ سے انکار کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جھوٹ بولیں۔ ان کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ دو امور کا ذکر تو قرآن مجید میں ہے، اب کیا ان آیات کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کا انکار کر دیا جائے، حقیقت ِ حال یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے تھے، بیٹے کو ذبح کرنے اور آگ میں پھینکے جانے جیسی کڑی آزمائشوں میں بھی ابراہیم علیہ السلام نے پست ہمتی کا سوچنا گوارا نہیںہے۔ اصل بات یہ ہے کہ رخصت، شریعت کا حسن ہوتی ہے، ہماری شریعت میں اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں، شریعت نے ہمیشہ صدق اور سچائی کی تعلیم دی اور اسی کی مدح سرائی کی، لیکن کسی بڑی مصلحت کی خاطر اسی شریعت نے بعض صورتوں میں خلاف ِ واقعہ بات کہہ دینے کی اجازت دی۔ ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ جب کسی نبی کے ذریعے شرعی قوانین مرتّب کیے جا رہے ہوتے ہیں، اس وقت صرف اس نبی کی ایمانی قوت، عملی رغبت اور تعلق باللہ کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اس کے امتیوں کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے، انبیاء ورسل کا اللہ تعالیٰ پر اتنا مضبوط ایماناور اعتقاد ہوتا ہے کہ کڑا سے کڑا امتحان اور انتہائی کٹھن مرحلہ ان میں تردّد اور تزلزل پیدا نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ ہمارے نبی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بعض اعمال اس لیے ترک کر دیتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے امتی آسانی میں رہیں۔ جب شرعی قوانین کو ترتیب دیا جاتا ہے، اس وقت افراد کیفطرتوں اور مجبوریوں کو بھی سامنے رکھا جاتا ہے، ان میں سے ایک مجبوری کسی خاص وقوعہ میں غلط بیانی اور خلافِ واقعہ بات کرنا ہے اور اس میں جہاں امت کے لیے بڑی آسانی ہے، وہاں شریعت کا حسن بھی نظر آتا ہے کہ اس نے بعض امور میں متبادل کی کوئی گنجائش نہیں رکھی، لیکن بعض میں افراد کے لیے سہولت کو پسند کیا۔دیکھیں جب تک کسی بالغ شخص کا ہوش برقرار ہے، اس کے لیے ترکِ نماز کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن صرف مریض کی مرض کو دیکھ روزہ ترک کرنے کی سہولت دے دی جاتی ہے اور وہ مستقل مریض ہو تو روزوں کی مستقل رخصت دے دی جاتی ہے اور اس کے عوض کفارہ کی تھوڑی سی مقدار قبول کر لی جاتی ہے، بالکل اسی طرح جہاں شریعت نے سچ بولنے کو فرض کیا، اس کو سراہا، اس کو نیک لوگوں کی صفت قرار دیا، وہاں بعض مواقع پر غلط بیانی کی رخصت بھی دے دی، تاکہ امت بوجھ محسوس نہ کرے۔ حدیث نمبر (۹۸۹۷)میں جھوٹ کے جواز کی صورتیں گزر چکی ہیں۔