Blog
Books
Search Hadith

اللہ کے نبی لوط علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے فرمان {قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ آوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ}کا بیان

۔ (۱۰۳۵۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ الْکَرِیْمَ بْنَ الْکَرِیْمِ بْنِ الْکَرِیْمِ بْنِ الْکَرِیْمِیُوْسُفُ بْنُ یَعْقُوْبَ بْنِ اِسْحَاقَ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلِ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ، وَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَوْ لَبِثْتُ فِیْ السِّجْنِ مَالَبِثَ یُوْسُفُ، ثُمَّ جَائَ نِیَ الدَّاعِی لَاَجَبْتُہُ اِذْ جَائَ الرَسُوْلُ فَقَالَ: {ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْاَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ اللَّاتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَھُنَّ اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِھِنَّ عَلِیْمٌ} وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلٰی لُوْطٍ اِنْ کَانَ لَیَاْوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ، اِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ: {لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ آوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ} وَ مَابَعَثَ اللّٰہُ مِنْ بَعْدِہِ مِنْ نَبِیٍّ اِلَّا فِیْ ثَرْوَۃٍ مِنْ قَوْمِہِ۔)) (مسند احمد: ۸۳۷۳)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کریم بن کریم بن کریم بن کریمیوسف بن یعقوب بن اسحاق بن خلیل الرحمن ابراہیمh ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں جیل میں اتنا عرصہ ٹھہرتا، جتنا کہ یوسف علیہ السلام ٹھہرے تھے اور پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں فوراً اس کی بات قبول کرتا، لیکنیوسف علیہ السلام نے کہا: تو لوٹ جا اپنے آقا کی طرف اور اس سے ان عورتوں کے بارے میں پوچھ، جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے، بیشک میرا ربّ ان کے مکر کو جاننے والا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کرے، انھوں نے اپنی قوم سے کہا: کاش کہ مجھ میں تمہارا مقابلہ کرنے کی قوت ہوتییا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔ (سورۂ ہود: ۸۰) ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھی بھیجا، اس کو اس کی قوم کے انبوہ کثیر میں بھیجا۔
Haidth Number: 10351
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۳۵۱) تخریج: أخرجہ البخاری: ۳۳۷۵، ومسلم: ص ۱۸۴۰ (انظر: ۸۳۹۲)

Wazahat

فوائد:… کریم بن کریم … کا مطلب یہ ہے کہ یہ چاروں ہستیاں معزز و مکرم بزرگ تھیں۔ یوسف کا ذکر کرکے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے ہوئے ان کے صبر اور کشادہ دلی کی تعریف کر رہے ہیں۔ قوت سے مراد اپنے دست و بازو اور اپنے وسائل کی قوت یا اولاد کی قوت مراد ہے اور رکن شدید (مضبوط آسرا) سے مراد خاندان، قبیلہیا اسی قسم کا مضبوط آسرا مراد ہے، یعنی وہ نہایت بے بسی کے عالم میں آرزو کر رہے ہیں کہ کاش! میرے اپنے پاس کوئی قوت ہوتییا کسی خاندان اور قبیلے کی پناہ اور مدد مجھے حاصل ہوتی تو آج مجھے مہمانوں کی وجہ سے یہ ذلت و رسوائی نہ ہوتی، بلکہ میں ان بد قماشوں سے نمٹ لیتا اور مہمانوں کی حفاظت کر لیتا، لوط علیہ السلام کییہ آرزو، اللہ تعالیٰ پر توکل کے منافی نہیں ہے، بلکہ ظاہری اسباب کے مطابق ہے اور توکل علی اللہ کا صحیح مفہوم بھییہی ہے کہ پہلے تمام ظاہری اسباب و سائل بروئے کار لائے جائیں اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کیا جائے۔ لوط علیہ السلام کی مذکورہ بالا کا سیاق و سباق درج ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے: {وَلَمَّا جَآئَ تْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓئَ بِھِمْ وَضَاقَ بِھِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ ھٰذَا یَوْم’‘ عَصِیْب’‘۔ وَجَآئَہٗقَوْمُہٗیُھْرَعُوْنَ اِلَیْہِ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ قَالَ ٰیقَوْمِ ھٰٓؤُلَآئِ بَنَاتِیْ ھُنَّ اَطْھَرُ لَکُمْ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُل’‘ رَّشِیْد’‘۔ قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَالَنَا فِیْ بَنٰتِکَ مِنْ حَقٍّ وَ اِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِیْدُ۔ قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ۔ قَالُوْا ٰیلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَد’‘ اِلَّا امْرَاَتَکَ اِنَّہٗمُصِیْبُھَا مَآ اَصَابَھُمْ اِنَّ مَوْعِدَھُمُ الصُّبْحُ اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ۔ فَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ۔ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۔} … اور جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) لوط کے پاس آئے، وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوا اور ان سے دل تنگ ہوا اور اس نے کہا یہ بہت سخت دن ہے۔اور اس کی قوم (کے لوگ) اس کی طرف بے اختیار دوڑتے ہوئے اس کے پاس آئے اور وہ پہلے سے برے کام کیا کرتے تھے۔ اس نے کہا اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں ہیں،یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں، تو اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں؟ انھوں نے کہا بلاشبہ یقینا تو جانتا ہے کہ تیری بیٹیوں میں ہمارا کوئی حق نہیں اور بلاشبہ یقینا تو جانتا ہے ہم کیا چاہتے ہیں۔ اس نے کہا کاش! واقعی میرے پاس تمھارے مقابلہ کی کچھ طاقت ہوتی،یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔ انھوں نے کہا اے لوط! بے شک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں،یہ ہرگز تجھ تک نہیں پہنچ پائیں گے، سو اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں لے کر چل نکل اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے مگر تیری بیوی۔ بے شک حقیقتیہ ہے کہ اس پر وہی مصیبت آنے والی ہے جو ان پر آئے گی۔ بے شک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے، کیا صبح واقعی قریب نہیں۔ پھر جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے اس کے اوپر والے حصے کو اس کا نیچا کر دیا اور ان پر تہ بہ تہ کھنگر کے پتھر برسائے۔ جو تیرے رب کے ہاں سے نشان لگائے ہوئے تھے اور وہ ان ظالموں سے ہرگز کچھ دور نہیں۔ (سورۂ ہود: ۷۷ تا ۸۲)