Blog
Books
Search Hadith

کلیم اللہ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کا بچھڑے کی عبادت شروع کر دینا اور اس چیز کو دیکھ کر موسی علیہ السلام کا تورات کی تختیوں کو پھینک دینا اور ان کا ٹوٹ جانا

۔ (۱۰۳۸۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَیْسَ الْخَبْرُ کَالْمُعَایَنَۃِ، اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اَخْبَرَ مُوْسٰی بِمَا صَنَعَ قَوْمُہُ فِیْ الْعِجْلِ فَلَمْ یُلْقِ الْاَلْوَاحَ، فَلَمَّا عَایَنَ مَاصَنَعُوْا اَلْقَی الْاَلْوَاحَ فَانْکَسَرَتْ۔)) (مسند احمد: ۲۴۴۷)

۔ سیدنا عبدا للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اطلاع دینا، مشاہدہ کرنے کی طرح نہیں ہے، بیشک جب اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو بتلایا کہ اس کی قوم نے بچھڑے کے معاملے میں یہ رویہ اختیار کر لیا ہے، تو انھوں نے تختیاں نہیں پھینکی، لیکن جب انھوں نے خود مشاہدہ کیا تو ان کو پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئیں۔
Haidth Number: 10380
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۳۸۰) تخریج: حدیث صحیح، أخرجہ الحاکم: ۲/ ۳۲۱، وابن حبان: ۶۲۱۳ (انظر: ۲۴۴۷)

Wazahat

فوائد:… جب موسی علیہ السلام چالیس راتوں کے لیے کوہِ طور پر گئے اور اللہ تعالیٰ سے تورات وصول کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو وہیں بتلا دیا تھا کہ ان کی قوم بچھڑے کو معبود بنا چکی ہے، آپ علیہ السلام نے یہ بات سن لی اور تورات کی تختیاں اٹھائے رکھیں، لیکن جب آ کر وہی منظر دیکھا تو کیفیت کچھ اور تھی۔ موسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر جو کچھ ہوا، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس انداز میں بیان کیا: {وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہِ غَضْبَانَ اَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْ بَعْدِیْ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّکُمْ وَاَلْقَی الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِیَجُرُّہٗ اِلَیْہِ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ فَلاَ تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآئَ وَلَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔} … اور جب موسی علیہ السلام اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟ کیااپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کر لی اور جلدی سے تختیاں ڈال دیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف کھینچنے لگے، ہارون علیہ السلام نے کہا کہ اے میری ماں کے بیٹے! ان لوگوں نے مجھ کو بے حقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں، اب تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ اور مجھ کو ان ظالموں کے ساتھ مت شمار کرو۔ (سورۂ اعراف: ۱۵۰) ہر انسان طبعی طور پر سننے اور دیکھنے میں فرق محسوس کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے مزید اطمینانِ قلب کے لیے اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کیا کہ وہ مردوں کو کیسے زندہ کرتاہے۔ جو تعجب اور حیرانی دیکھ کر ہوتی ہے، وہ سن کر نہیں ہو سکتی۔ اور جو یقین و ایقان دیکھ کر حاصل ہوتا ہے وہ صرف سن کا نہیں ہوتا۔