Blog
Books
Search Hadith

قارون کا دھنسنا اور موسی علیہ السلام کا اس کے ساتھ قصہ

۔ (۱۰۳۸۵)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: حَدَّثَنِیْ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ خَلَیْلِیْ اَبُوْ الْقَاسِمِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((بَیْنَمَا رَجُلٌ مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ یَتَبَخْتَرُ بَیْنَ بُرْدَیْنِ فَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، فَاَمَرَ الْاَرْضَ فَبَلَعَتْہُ، فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ اِنَّہُ لَیَتَجَلْجَلُ اِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ)) (مسند احمد: ۱۰۴۵۹)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے صادق و مصدوق خلیل ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے والے لوگوں میں ایک آدمی تھا، وہ دو چادریں زیب ِ تن کر کے اترا کے چل رہا تھا، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوا اور اس نے زمین کو حکم دیا، پس وہ اس کو نگل گئی، پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ قیامت کے دن تک دھنستا رہے گا۔
Haidth Number: 10385
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۳۸۵) تخریج: أخرجہ البخاری: ۵۷۸۹، ومسلم: ۲۰۸۸ (انظر: ۱۰۴۵۵)

Wazahat

فوائد:… قارون، موسی علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ درج بالا احادیث میں جس شخص کا ذکر ہے، اس سے مراد قارون ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْھِمْ وَاٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗلَتَنُوْٓاُبِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ اِذْ قَالَ لَہٗقَوْمُہٗلَاتَفْرَحْاِنَّاللّٰہَلَایُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ۔ وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ۔ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَھْلَکَ مِنْ قَبْلِہِ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ھُوَ اَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَّاَکْثَرُ جَمْعًا وَلَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِھِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۔ فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہِ فِیْ زِیْنَتِہِ قَالَ الَّذِیْنَیُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا ٰیلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَقَارُوْنُ اِنَّہٗلَذُوْحَظٍّعَظِیْمٍ۔ وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیْر’‘ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ۔ فَخَسَفْنَا بِہٖوَبِدَارِہِالْاَرْضَفَمَاکَانَلَہٗمِنْفِئَۃٍیَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ۔ وَاَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَکَانَہٗبِالْاَمْسِیَقُوْلُوْنَ وَیْکَاَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہِ وَیَقْدِرُ لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَیْکَاَنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ۔ تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ۔} … بے شک قارون موسیٰ کی قوم سے تھا، پس اس نے ان پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے کہ بلا شبہ ان کی چابیاںیقینا ایک طاقتور جماعت پر بھاری ہوتی تھیں۔ جب اس کی قوم نے اس سے کہا مت پھول، بے شک اللہ پھولنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس میں آخرت کا گھر تلاش کر اور دنیا سے اپناحصہ مت بھول اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد مت ڈھونڈ، بے شک اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔اس نے کہا مجھے تو یہ ایک علم کی بنا پر دیا گیا ہے، جو میرے پاس ہے۔ اور کیا اس نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ اس سے پہلے کئی نسلیں ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ طاقتور اور زیادہ جماعت والی تھیں اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔پس وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی زینت میں نکلا۔ ان لوگوں نے کہا جو دنیا کی زندگی چاہتے تھے، اے کاش! ہمارے لیے اس جیسا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے، بلاشبہ وہ یقینا بہت بڑے نصیب والا ہے۔اور ان لوگوں نے کہا جنھیں علم دیا گیا تھا، افسوس تم پر! اللہ کا ثواب اس شخص کے لیے کہیں بہتر ہے جو ایمان لایا اور اس نے اچھا عمل کیا اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کرنے والے ہیں۔تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا، پھر نہ اس کے لیے کوئی جماعت تھی جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ اپنا بچاؤ کرنے والوں سے تھا۔اور جن لوگوں نے کل اس کے مرتبے کی تمنا کی تھی انھوں نے اس حال میں صبح کی کہ کہہ رہے تھے افسوس! اب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور تنگ کر دیتا ہے، اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہم پر احسان کیا تو وہ ضرور ہمیں دھنسا دیتا، افسوس! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حقیقتیہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پاتے۔ یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔ (سورۂ قصص: ۷۴۔ ۸۳) انسان کے اندر جو صلاحیت پائی جاتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، لہٰذا محسِنِ حقیقی اور منعمِ حقیقی سے کبھی بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے، وگرنہ اللہ تعالیٰ کے کیے گئے احسان وبالِ جان بن جاتے ہیں، اس ضمن میں سب سے زیادہ سبق آموز مثال قارون کی ہے، کتنے خزانوں کا مالک تھا، لیکن اس کے مال و دولت نے اس کو کفایت نہ کیا، بلکہ اس کے لیے زمین میں دھنس جان کا سبب بن گیا۔