Blog
Books
Search Hadith

خضر علیہ السلام اور الیاس علیہ السلام کا ذکر

۔ (۱۰۳۹۵)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ ) عَنْ ھَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ، عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ الْخَضِرِ: ((اِنّمَا سُمِّیَ خَضِرًا اِنَّہُ جَلَسَ عَلَی فَرْوَۃَ بَیْضَائَ فَاِذَا ھِیَ تَحْتَہُ خَضْرَائُ۔)) (مسند احمد: ۸۰۹۸)

۔ (دوسری سند) سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خضر کے نام کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ خشک زمین، جس پر کوئی سبزہ نہ ہوتا، پر بیٹھتے تو وہ ان کے نیچے سبز ہو جاتی تھی۔
Haidth Number: 10395
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۳۹۵) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الأول

Wazahat

فوائد:… خضر کو تین طرح سے پڑھا گیا ہے: خَضِر، خِضْر، خِضَر۔ یہ لقب ہے، وہب بن عقبہ نے کہا کہ خضر کا نام بلیاء بن ملکان تھا۔ خضر علیہ السلام کی حیات اور نبوت کے بارے میں اختلاف ہے، موت و حیات میں سے کسی ایک چیز کو ثابت کرنے کے لیے ہر فریق نے دور دور کی دلیلیں پیش کی ہیں، ہمارا نظریہیہ ہے کہ یہ عوام سے متعلقہ موضوع نہیں ہے اور اس سے خاموشی اختیار کرنی چاہیے، بہرحال یہ بات قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہے کہ انبیاء و رسل کا مرتبہ صوفیاء اور اولیاء سے زیادہ ہوتا ہے، صرف ایک گزارش کرتے ہیں: خضر علیہ السلام کی حیات: اس معاملے میں اصل قانون تو موت ہی ہے، جب تک کسی خاص دلیل کی روشنی میں زندگی کو ثابت نہ کر دیا جائے اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی خاص دلیل نہیں ہے جو آج تک خضر علیہ السلام کی حیات پر دلالت کرے، جبکہ درج ذیل تین دلائل سے ان کی موت کا اشارہ ملتا ہے: ۱۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاْئِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ۔ } … اور ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہمیشگی نہیں دی، کیا اگر آپ فوت ہو گئے تو کیا وہ ہمیشہ کے لیے رہ جائیں گے۔ (سورۂ انبیائ: ۳۴) جب کافروں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بابت کہا کہ چلو ایک دن اس نے مر ہی جانا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا کہ موت تو ہر انسان کو آنی ہے، کوئی بھی اس اصول سے مستثنی نہیں ہے، یہاں کہ حضرت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی۔ یہ آیت خضر علیہ السلام کو بھی شامل ہے۔ ۲۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْل’‘ مُّصَدِّق’‘ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖوَلَتَنْصُرُنَّہٗقَالَئَاَقْرَرْتُمْوَاَخَذْتُمْعَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ۔} … جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے، پھر پوچھا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے، فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ (سورۂ آل عمران: ۸۱) خضر علیہ السلام نبی ہیںیا ولی، بہرحال وہ اس معاہدے اور میثاق میں داخل ہیں، اگر وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے تک زندہ تھے تو ان کا شرف اسی میں تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ کر اس معاہدے کی پاسداری کرتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد کرتے، لیکن صورتحال یہ ہے کہ کسی دلیل سے ان کی آمد کا علم نہیں ہوتا۔ اٰیت میں انبیائh سے وعدہ لینے کا ذکر ہے اس لیے خضر علیہ السلام اگر نبی تسلیم کیے جائیں تو پھر وہ اس اٰیت میں مذکور میثاق میں سے داخل ہوں گے ورنہ نہیں۔ اور پہلی بات راجح ہے۔ (عبداللہ رفیق) ۳۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : صَلَّی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَاۃَ الْعِشَائِ فِیْ آخِرِ حَیَاتِہِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَرَأَیْتَکُمْ لَیْلَتَکُمْ ھٰذِہِ، فَاِنَّ رَأْسَ مِائَۃٍ مِنْھَا لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھُوَ الْیَوْمَ عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ اَحَدٌ۔)) … نبیکریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہمیں نمازِ عشا پڑھائی، سلام پھیرنے کے بعد فرمایا: کیا خیال ہے تمہارا اس رات کے بارے، (ذرا غور کرو کہ آج) جو زمین کی پشت پر موجود ہے، وہ سو برس تک باقی نہیں رہے گا۔ (صحیح بخاری: ۶۰۱، صحیح مسلم: ۲۵۳۷) حافظ ابن حجر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌نے کہا: وکذالک وقع بالاستقراء فکان آخر من ضبط أمرہ ممن کان موجودا حینئذ أبو الطفیل عامر بن واثلۃ، وقد أجمع أھل الحدیث علی انہ کان آخر الصحابۃ موتا، وغایۃ ما قیل فیہ انہ بقی الی سنۃ عشر ومائۃ وھی رأس مائۃ سنۃ من مقالۃ النبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واللہ اعلم۔… اور تحقیقی طور پر اسی طرح واقع ہوا، پس آخری صحابی جس کے حالات قلم بند کیے اور جو اس وقت موجود تھا، وہ سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہے، اس پر محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے تھے، زیادہ سے زیادہیہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ تو ۱۱۰؁ھمیں فوت ہوئے، (نہ کہ پہلی صدی کے آخر میں) تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارشاد کو سو سال اسی کی وفات پر ہی پورے ہوئے تھے۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری: ۲/ ۹۵) حافظ ابن حجر نے یہ بھی کہا کہ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی۔ (فتح الباری: ۱/ ۲۸۲) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کا تعلق انسانوں سے ہے، اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں خضر علیہ السلام کا زندہ ہونا فرض کر لیں تو وہ اس حدیث کا مصداق بنیں گے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ابن جوزی نے کہا: یہ احادیث ِ صحیحہ، خضر علیہ السلام کی حیات کے دعوی کو جڑ سے کاٹ دیتی ہیں۔ خضر علیہ السلام کی نبوت: حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں خضر علیہ السلام کی نبوت اور موت کے بارے میں گفتگو کی ہے، انھوں نے ان کی نبوت کے بارے میں کہا: خضر علیہ السلام کا موسی علیہ السلام کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (سورۂ کہف) میں ذکر کی ہے، یہ واقعہ کئی وجوہات سے خضر کی نبوت پر دلالت کرتاہے، بعض وجوہات یہ ہیں: ۱۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَیْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِّنْ لَّدُنَّا عِلْمًا} … تو ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے ہاں سے ایک رحمت عطا کی اور اسے اپنے پاس سے ایکعلم سکھایا تھا۔ (سورۂ کہف: ۶۵) ۲۔ موسی علیہ السلام کا خضر علیہ السلام سے یہ کہنا: {ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۔ قَالَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا۔ وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِہٖخُبْرًا۔ قَالَ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّلَآ اَعْصِیْ لَکَ اَمْرًا۔ قَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلََا تَسْئَلْنِیْ عَنْ شَیْئٍ حَتّیٰٓ اُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا۔} … موسیٰ نے اس سے کہا کیا میں تیرے پیچھے چلوں؟ اس (شرط) پر کہ تجھے جو کچھ سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دے۔ اس نے کہا بے شک تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔اس نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو تو مجھے ضرور صبر کرنے والا پائے گا اور میں تیرے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ کہا پھر اگر تو میرے پیچھے چلا ہے تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں مت پوچھنا، یہاں تک کہ میں خود تیرے لیے اس کا کچھ ذکر کروں۔ (سورۂ کہف: ۶۶ تا ۷۰) اگر خضر علیہ السلام صرف ولی ہوتے تو موسی علیہ السلام ان کو اس انداز میں خطاب نہ کرتے اور نہ وہ اس انداز میں جواب دیتے، دیکھیں موسی علیہ السلام اُن سے اُن کی صحبت کا سوال کر رہے ہیں، تاکہ وہ اُن سے وہ چیز حاصل کر لیں، جو اللہ تعالیٰ نے صرف اُن کو عطا کی ہے۔ اگر خضر علیہ السلام نبی نہ ہوتے تو وہ تو سرے سے معصوم ہی نہ تھے، جبکہ موسی علیہ السلام عظیم پیغمبر تھے اور معصوم تھے، سو آپ علیہ السلام کو ان سے کیا رغبت ہونی تھی۔ ۳۔ خضر علیہ السلام نے لڑکے کو قتل کیا تھا، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی صورت میں ہو سکتا ہے، یہ ان کی نبوت پر مستقل دلیل اور ان کی عصمت پر واضح برہان ہے، کیونکہ ولی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی خیال کی روشنی میں کسی کو قتل کر دے۔ پھر خضر علیہ السلام کا یہ وجہ بیان کرنا کہ اس لڑکے نے بڑے ہو کر کافر بننا تھا اور اپنے والدین کو بھی کفر پر آمادہ کرنا تھا۔ ابن جوزی نے ان ہی وجوہات کی روشنی میں خضر علیہ السلام کی نبوت ثابت کی ہے۔ ۴۔ جب خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کے لیے اپنے افعال کی وضاحت کی تو کہا: {رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ وَمَا فَعَلْتُہٗعَنْاَمْرِیْ} … تیرے رب کی طرف سے رحمت کے لیے اور میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا (سورۂ کہف: ۸۲)یعنییہ افعال میرے نفس کی اختراع نہیں، بلکہ مجھے ان کے بارے میں حکم دیا گیا اور میری طرف وحی کی گئی۔ ۵۔ حدیث نمبر (۱۰۳۹۴، ۱۰۳۹۵) کے مطابق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خضر علیہ السلام کی جو خصوصیت بیان کی ہے، ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کا معجزہ تھا۔ ان وجوہات سے پتہ چلتا ہے کہ خضر علیہ السلام نبی تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ الیاس علیہ السلام : تبویب میں الیاس علیہ السلام کاذ کر موجود ہے، لیکن باب کے اندر ان سے متعلقہ کوئی حدیث نہیں ہے، البتہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ملتا ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَاِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہِٓ اَلََا تَتَّقُوْنَ۔ اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ۔ اللّٰہَ رَبَّکُمْ وَرَبَّ اٰبَآئِکُمُ الْاَوَّلِیْن۔ فَکَذَّبُوْہُ فَاِنَّھُمْ لَمُحْضَرُوْنَ۔ اِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ۔ سَلٰم’‘ عَلٰٓی اِلْ یَاسِیْنَ۔ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔ اِنَّہٗمِنْعِبَادِنَاالْمُؤْمِنِیْنَ۔} … اور بلاشبہ الیاسیقینا رسولوں میں سے تھا۔جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ؟ کیا تم بعل کو پکارتے ہواور بنانے والوں میں سے سب سے بہتر کو چھوڑ دیتے ہو؟اللہ کو،جو تمھارا رب ہے اور تمھارے پہلے باپ دادا کا رب ہے ۔تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، سو یقینا وہ ضرور حاضر کیے جانے والے ہیں ۔مگر اللہ کے وہ بندے جو چنے ہوئے ہیں۔اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کے لیےیہ بات چھوڑ دی ۔کہ سلام ہو الیاسین پر ۔بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔ (سورۂ صافات: ۱۲۳۔ ۱۳۱) الیاس علیہ السلام ، ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک اسرائیلی نبی تھے، یہ جس علاقے میں بھیجے گئے تھے، اس کا نام بعلبک تھا، بعض کہتے ہیں کہ اس جگہ کا نام سامرہ تھا، جو فلسطین کا مغربی وسطی علاقہ ہے، یہاں کے لوگ بعل نامی بت کے پجاری تھے۔