Blog
Books
Search Hadith

داود علیہ السلام کی وفات، وفات کی کیفیت اور ان کی عمر کا بیان

۔ (۱۰۴۰۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کَانَ دَاوٗدُالنَّبِیُّ فِیْہِ غَیْرَۃٌ شَدِیْدَۃٌ، وَ کَانَ اِذَا خَرَجَ اُغْلِقَتِ الْاَبْوَابُ فَلَمْ یَدْخُلْ عَلٰی اَھْلِہِ اَحَدٌ حَتّٰییَرْجِعَ، قَالَ: فَخَرَجَ ذَاتَ یَوْمٍ وَ غُلِّقَتِ الدَّارُ فَاَقْبَلَتْ اِمَرَاَتُہُ تَطَّلِعُ اِلَی الدَّارِ فَاِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ وَسْطَ الدَّارِ، فَقَالَت لِمَنْ فِیْ الْبَیْتِ: مِنْ اَیْنَ دَخَلَ ھٰذَا الرَّجُلُ الدَّارَ وَالدَّارُ مُغْلَقَۃٌ؟ وَاللّٰہِ لَتُفْتَضَحَنَّ بِدَاوُدَ فَجَائَ دَاوُدُ، فَاِذَا الرَّجُلُ قَائِمٌ وَسْطَ الدَّارِ، فَقَالَ لَہُ دَاوُدُ: مَنْ اَنْتَ؟ قَالَ: اَنَا الَّذِیْ لَا اَھَابُ الْمُلُوْکَ وَ لَا یَمْتَنِعُ مِنِّی شَیْئٌ، فَقَالَ دَاوُدُ: اَنْتَ وَاللّٰہِ! مَلَکُ الْمَوْتِ، فَمَرْحَبًا بِاَمْرِ اللّٰہِ، فَرُمِلَ دَاوُدُ مَکَانَہُ حَیْثُ قُبِضَتْ رُوْحُہُ حَتّٰی فَرَغَ مِنْ شَاْنِہِ وَطَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ، فَقَالَ سُلَیْمَانُ لِلطَّیْرِ: اَظِلِّیْ عَلٰی دَاوُدَ، فَاَظَلَّتْ عَلَیْہِ الطَّیْرُ حَتَّی اَظْلَمَتْ عَلَیْھِمَا الْاَرْضُ، فَقَالَ لَھَا سُلَیْمَانُ: اقْبِضِیْ جَنَاحًا جَنَاحًا۔)) قَالَ اَبُوْ ھُرَیْرَۃ: یُرِیْنَارَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَیْفَ فَعَلَتِ الطَّیْرُ، وَقَبَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِہِ، وَ غَلَبَتْ عَلَیْہِ ِیَوْمَئِذٍ الْمَصْرَجیَّۃُ۔ (مسند احمد: ۹۴۲۲)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے نبی داود علیہ السلام شدید غیرت سے متصف تھے، جب وہ گھر سے باہر جاتے تو دروازے بند کر دیئے جاتے اور ان کے گھر والوں کے پاس کوئی نہ آ سکتا، یہاں تک کہ وہ واپس تشریف لے آتے، ایک دن روٹین کے مطابق وہ باہر چلے گئے اور گھر کو بند کر دیا گیا، لیکن جب ان کی بیوی گھر کی طرف متوجہ ہوئی تو انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی گھر کے درمیان میں کھڑا ہے، انھوں نے اس شخص کے بارے میں کہا: یہ آدمی گھر میں کیسے داخل ہوا، جبکہ گھر بند تھا؟ اللہ کی قسم! ہمیں داود کے ساتھ رسوا ہونا پڑے گا، اتنے میں داود علیہ السلام آگئے، جب انھوں نے گھر کے بیچ میں ایک آدمی کو دیکھا تو انھوں نے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں وہ ہوں، جو بادشاہوں سے نہیں ڈرتا، بلکہ کوئی چیز مجھ سے بچ نہیں سکتی، داود علیہ السلام نے کہا: اللہ کی قسم! تو تو ملک الموت ہے، اللہ کے حکم کو مرحبا، داود علیہ السلام نے اس جگہ پر دفن ہونا تھا، جہاں ان کی روح قبض ہوئی، اُدھر جب فرشتہ اپنے کام سے فارغ ہوا تو سورج طلوع ہو گیا، سلیمان علیہ السلام نے پرندوں سے کہا: داود پر سایہ کرو، پس پرندوں نے ان پر سایہ کیا،یہاں تک کہ زمین نے ان دونوں پر اندھیرا کر دیا، سلیمان علیہ السلام نے کہا: ایک ایک پر بند کرو۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں دکھایا کہ پرندوں نے کیسے کیا، ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک بند کیا، اس دن لمبے پروں والے شکرے ان پر غالب آ گئے۔
Haidth Number: 10401
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۴۰۱) تخریج: اسنادہ ضعیف لانقطاعہ، فان المطلب بن عبد اللہ لم یسمع من ابی ھریرۃ (انظر: ۹۴۳۲)

Wazahat

فوائد:… لفظ الْمَصْرَجیَّۃُ لکھنا، یہ کاتب کی غلطی ہے، یہ لفظ دراصل یوں ہے: الْمَضْرَحیَّۃُ ، ہم نے اصل لفظ کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب قرضے والی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اَوَّلَ مَنْ جَحَدَ آدَمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، اَوْ اَوَّلُ مَنْ جَحَدَ آدَمُ، اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَمَّا خَلَقَ آدَمَ مَسَحَ ظَھْرَہُ فَاَخْرَجَ مِنْہُ مَا ھُوَ مِنْ ذَرَارِیِّ اِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَجَعَلَ یَعْرِضُ ذُرِّیَّتَہُ عَلَیْہِ فَرَاٰی فِیْھِمْ رَجُلًا یَزْھَرُ، فَقَالَ: اَیْ رَبِّ! مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: ھٰذَا اِبْنُکَ دَاوُدُ، قَالَ: اَیْ رَبِّ! کَمْ عُمْرُہُ؟ قَالَ: سِتُّوْنَ عَامًا، قَالَ: رَبِّ! زِدْ فِیْ عُمْرِہِ، قَالَ: لَا، اِلَّا اَزِیْدُہُ مِنْ عُمْرِکَ، وَکَانَ عُمَرُ آدَمَ اَلْفَ عَامٍ فَزَادَہُ اَرْبَعِیْنَ عَامًا، فَکَتَبَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ کِتَابًا وَ اَشْھَدَ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃَ، فَلَمَّا احْتُضِرَ آدَمُ وَاَتَتْہُ الْمَلَائِکَۃُ لِتَقْبِضَہُ قَالَ: اِنَّہُ قَدْ بَقِیَ مِنْ عُمْرِیْ اَرْبَعُوْنَ عَامًا، فَقِیْلَ: اِنَّکَ قَدْ وَھَبْتَھَا لِاِبْنِکَ دَاوُدَ، قَالَ: مَا فَعَلْتُ وَ اَبْرَزَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہِ الْکِتَابَ وَ شَھِدَتْ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃُ (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ) فَاَتَّمَھَا لِدَاوُدَ مِائَۃَ سَنَۃٍ وَاَتَّمَھَا لِآدَمَ عُمْرَہُ اَلْفَ سَنَۃٍ۔)) … بیشک سب سے پہلے انکار کرنے والے آدم علیہ السلام ہیں، اس کی تفصیلیہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ کو چھو کر اس سے ان کی قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کو نکالا اور اس اولاد کو ان پر پیش کیا، انھوں نے اس میں ایک خوش نما اور تابناک آدمی دیکھا اور کہا: اے میرے ربّ! یہ کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: یہ تیرا بیٹا داود ہے، انھوں نے کہا: اے میرے ربّ ! اس کی عمر کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: ساٹھ سال، انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! اس کی عمر میں اضافہ کر دے، اللہ تعالیٰ نے کہا: نہیں، الا یہ کہ تیری عمر سے اضافہ کیا جائے۔ آدم علیہ السلام کی عمر ایک ہزار سال تھی، انھوں نے اپنی عمر میں سے داود کی عمر میں چالیس سال اضافہ کر دیا، اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو لکھ لیا اور فرشتوں کوگواہ بنا لیا، جب آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا اور ان کی روح قبض کرنے کے لیے فرشتے ان کے پاس آئے تو انھوں نے کہا: ابھی تک میری عمر کے تو چالیس سال باقی ہیں، ان سے کہا گیا کہ آپ نے وہ چالیس سال تو اپنے بیٹے داود کو ہبہ کر دیئے تھے، آدم علیہ السلام نے کہا: میں نے تو ایسے نہیں کیا تھا، اُدھر اللہ تعالیٰ نے کتاب کو ظاہر کر دیا اور فرشتوں نے گواہی دے دی، لیکن پھر داود علیہ السلام کی عمر بھی سو سال پوری کر دی اور آدم علیہ السلام کی ایک ہزار پوری کر دی۔ (مسند طیالسی: ۲۶۹۲، مسند ابو یعلی: ۲۷۱۰، مسند احمد: ۲۲۷۰)