Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نبوت پر دلالت کرنے والی علامتیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعثت کی بشارت اور تورات میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیان کردہ صفات (محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سابقہ کتب میں)

۔ (۱۰۴۸۶)۔ (عَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) قَالَ: بَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ فِیْ غُنَیمَۃٍ لَہُ یَھُشُّ عَلَیْھَا فِیْ بَیْدَائِ ذِی الْحُلَیْفَۃِ اِذْ عَدَا عَلَیْہِ الذِّئْبُ فَانْتَزَعَ شَاۃً مِنْ غَنَمِہِ فَجَھْجَأَہُ الرَجُلُ فَرَمَاہُ بِالْحِجَارَۃِ حَتّٰی اسْتَنْقَذَ مِنْہُ شَاتَہُ، ثُمَّّ اِنَّ الذِّئْبَ أَقْبَلَ حَتّٰی أَقْعٰی مُسَتَذْفِرًا بِذَنَبِہٖمُقَابِلَالرَّجُلِ،فَذَکَرَنَحْوَحَدِیْثِ شُعَیْبِ بْنِ أَبِیْ حَمْزَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۱۸۶۶)

۔ (تیسری سند) بنو اسلم قبیلے کا ایک آدمی ذو الحلیفہ میں بیداء مقام پر اپنی بکریوں کو ہانک رہا تھا، اچانک ایک بھیرئیے نے حملہ کیا اور ایک بکری لے گیا، لیکن اس بندے نے اس کو ڈانٹا، چلّایا اور اس کو پتھر مارا اور اس سے اپنی بکری بچا لی، پھر وہ بھیڑیا اپنی دم کو ٹانگوں کے درمیان کر کے اس آدمی کے سامنے بیٹھ گیا، ……۔ آگے وہی روایت ذکر کی۔
Haidth Number: 10486
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۴۸۶) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الثانی

Wazahat

فوائد:… نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد سے پہلے سابقہ مذہبی ادب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا واضح تذکرہ ملتاہے۔ اس ضمن میں سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی روایت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بڑا خوبصورت تذکرہ موجود ہے، ملاحظہ ہو حدیث نمبر (۱۱۷۴۳)، نیز درج ذیل مضمون کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کریں: محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سابقہ کتب میں: سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اے اللہ کے رسول! انبیا کی تعداد کتنی تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی تھے، ان میں رسولوں کی تعداد (۳۱۵) تھی، جم غفیر ہے۔ (مسند احمد: ۵/ ۲۶۵) ان (۳۱۵) رسولوں میں درج ذیل پانچ اولوا العزم پیغمبر تھے: نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور محمدh۔ پھر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سید الاولین والآخرین قرار دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے پہلے اور آخری رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے پیغام رساؤں اور قاصدوں کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا، وہ نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ختم ہو گیا۔ یہودیوں کی تورات، عیسائیوں کی انجیل اور ہندؤوں کی ویدوں میں محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حق میں پیشین گوئیاں کی گئی ہیں، ان کا تذکرہ کیا گیا ہے، یہ پیشین گوئیاں واضح، دو ٹوک اور اظہر من الشمس ہیں۔ بہرحال دنیا نے ضد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا۔ قرآن مجید کی شہادت: اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مذہبی معاملات میں ہمارا سارا عتماد قرآن و حدیث پر ہے، ہماری شریعت میں جن اسرائیلی روایات کے صدق یا کذب پر مشتمل ہونے کا پتہ نہ چل رہا ہو، سرے سے ان کی تصدیقیا تکذیب کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فرما دیا ہے کہ تورات و انجیل میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد کی پیشینگوئیاں اور آپ اور آپ کے صحابہ کی صفات کا تذکرہ موجود ہے، اس لیےیہ تسلیم کرنا ضروری ہو گا کہ ان دو کتب میں یہ تذکرے موجود تھے، لیکن تورات یا انجیل کے کسینسخے کو دیکھ کر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ وہی جملے یا الفاظ ہیں جو موسی علیہ السلام یا عیسی علیہ السلام پر نازل ہوئے تھے۔ اس بحث سے ہمارے دو مقاصد ہیں: ۱۔ اہل کتاب پر ان کی الہامی کتب کے ذریعے ان پر حق واضح کیا جائے۔ ۲۔ اگرچہ اہل اسلام کے لیے قرآن و حدیث ہی کافی ہیں، لیکن طبعی طور پر اس امر سے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اغیار کا مذہبی ادب بھی ہمارے نبی اور دین کو برحق تسلیم کر رہا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { اَلَّذِیْنَیَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِیْیَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِیْ التَّوْرٰۃِ وَالأنْجِیْلِ }(سورۂ اعراف: ۱۵۶) یعنی: جو لوگ ایسے رسول نبی امی کی اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تو رات و انجیل میں لکھا ہو اپاتے ہیں ۔ قرآن مجید کی اس شہادت سے معلوم ہوا کہ تورات و انجیل میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا تذکرہ موجود تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَیٰبَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہٗاَحْمَدُفَلَمَّاجَآئَھُمْبِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ .} (سورۂ صف: ۵) یعنی: اور جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے (میری قوم ) ، نبی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں او ر اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جنکا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے، یہ تو کھلا جادو ہے۔ اس آیت ِ مبارکہ میں عیسی علیہ السلام نے اپنے بعد آنے والے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خوشخبری سنائی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ َیتْلُوْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ} (سورۂ بقرہ: ۱۲۸) یعنی: اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقینا تو غلبے والا اور حکمت والا ہے ۔ ابراہیم اور اسماعیلm نے کعبہ کی تعمیر کرتے وقت یہ دعا کی تھی، جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شکل میں چھبیس صدیوں کے بعد پوری کی۔ سیدنا عرباض بن ساریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کا وہ بندہ ہوں، جس کو ام الکتاب میں اس وقت خاتم النبین لکھ دیا گیا تھا، جب آدم علیہ السلام ابھی تک اپنی مٹی میں پڑے ہوئے تھے، اور میں عنقریب تم کو اس کی تأویل کے بارے میں بتلاؤں گا، میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسی علیہ السلام کی بشارت ۔ ملاحظہ ہو حدیث نمبر (۱۰۴۵۷)۔ سابقہ مذہبی کتب میں تذکرۂ محمدی سابقہ کتب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نام اور ان کے معانی: نراشنس: محمد مامح: محمد مترپیا: رحم والا، ہمدردی والا، استوت اریتا:م ددگار، تمام قوموں کو یکجا کرنے والا فارقلیط: احمد یا محمد۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عیسائی،یہودی اور ہندو نبی آخرا لزمان، اسلام اور اہل اسلام کے دشمن ہیں، انھوں نے جان بوجھ کر اپنی اپنی کتابوں میں تحریفیں کیں، لیکن اس کے باوجود ان کی کتب میں ایسی عبارات موجود ہیں، جن کا واضح طور پر مصداق محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ٹھہرتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیزندگی میں ورقہ بن نوفل، نجاشی اور ہرقل جیسے عظیم لوگوںنے ان حقائق کا اعتراف کر لیا تھا۔ صحف آدم میں : آدم علیہ السلام کو صحیفے عطا کیے گئے، ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مخاطب ہو کر کہا: اے آدم! جو شخص میرے اس گو (خانہ کعبہ) کی زیارت سے مشرف ہو گا، اسے میری زیارت ہو گی …… حتی کہ سلسلہ تیرے فرزند ارجمند تک پہنچے گا، جو تیری اولاد میں افضل ہو گا، اس کا نام نامی محمد ہو گا، حسن و جمال میں بدر کامل ہو گا۔ (نقوش : رسول نمبر، محمد طفیل، ج 9،ش130، ص: 33، ایڈیشن : 1984ئ، ادارہ فروغ اردو لاہور) تورات میں تورات تاریخیہودیت کے پہلے تین ادوار میں ہی ضیاع اور آتش زنی کا شکار ہو چکی تھی، ……بہرحال یہ ایک الہامی کتاب ہے، ہم اپنے موضوع سے متعلقہ چند ایک اقتباسات نقل کریں گے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شان میں اضافہ ہو جائے۔ تورات سِفر التثنیہ میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام سے کہا: آپ بنی اسرائیل سے کہہ دیجئے کہ میں ان کے لیے آخری زمانہ میں آپ کی ہی طرح کا ایک نبی بھیجوں گا، جو ان کے بھائیوں کی اولاد میں سے ہو گا اور میں اپنے کلام کو اس کی زبان پر جاری کروں گا۔ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی نے کہا: اور یہ بات معلوم ہے کہ موسی علیہ السلام کے بعد ہر نبی بنی اسرائیل میں سے ہوا اور ان میں آخری نبی عیسی علیہ السلام ہوئے اور ان کے بھائیوں کی اولاد میں سے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نبی ہوئے، اس لیے کہ وہ اسماعیل کی اولاد میں سے تھے اور اسماعیل، اسحاق کے بھائی تھے۔ اگریہ بشارت بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے کسی نبی کے بارے میں ہوتی تو ان کے بھائیوں کا ذکر بے معنی ہوتا۔ ( الصادق الامین: صـ ۹۲) سِفر التثنیہ میں ہے: اور رب سینا سے آیا، اور ان کے لیے ساعیر سے چمکا اور جبل فاران سے آتا ہوا جلوہ افروز ہوا اور اس کے ساتھ دس ہزار پاکباز لوگ آئے اور اس کے دائیں ہاتھ سے ان کے لیے شریعت کی آگ ظاہر ہوئی۔ (سفر التثنیہ: باب ۳۲، عربی ترجمہ، مطبوعہ: ۱۸۴۴) ہندو کتابوں میں ہندو دھرم، جس کی بنیاد۱۵۰۰ ق م رکھی گئی، ہمارے برصغیر ہندو ستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کا مشہور اور قدیم مذہب ہے ۔ ہندوستان میں اسی دھرم کو ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ ہندو دھرم کی سب سے مشہور اور اولین کتاب وید ہے، وید چار ہیں، جو بالترتیبیہ ہیں: رگ وید،یجر وید، سام وید، اتہر وید۔ نراشنس کا ذکر چاروں ویدوں میں ہے، لیکن سب سے تفصیلی ذکر اتہر وید میں ہے، لہٰذا سب سے پہلے اسی کا اقتباس پیش کرتے ہیں۔ اس کتاب میں اس موضوع پر کل چودہ منتر ہیں، جو اتہر وید، کانڈ (۲۰)، سوکت (۱۲۷)، منتر (۱) تا (۱۴) پر مشتمل ہیں۔ (ہم بعض منتروں کا ذکر کریں گے) منتر (۱): لوگو! احترام سے سنو، نراشنس کی تعریف کی جائے گی، ہم اس مہاجر یا امن کے علمبردار کو ساٹھ ہزار نوے دشمنوں کے درمیان محفوظ رکھیں گے۔ ابن اکبر اعظمی نے کہا: نراشنس سنسکرت زبان کا لفظ ہے، یہ دو الفاظ سے مرکب ہے، ایک لفظ نر ہے، جس کے معانی انسان کے ہیں اور دوسرا لفظ اشنس ہے، جس کے معانی ہیں: وہ شخص جس کی کثرت سے تعریف کی جائے۔ اس طرح نراشنس کا بعینہ وہی معنی ہوا جو عربی میں لفظ محمد کا ہے۔ ساٹھ ہزار نوے دشمن، اس تعداد کا تعین نہایت باریکی کے ساتھ کیا گیا،یہ نہایت عظیم اور حیرتناک پیشین گوئی ہے، شارحین اس کا مصدا ق ڈھونڈنے اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر اس کو چسپاں کرنے کے سلسلے میں حیران و پریشان ہیں۔ … …ان دشمنوں سے مراد مردان جنگی ہیں، جو تلوار لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مقابل آئے، یا جنہوں نے خفیہ طور پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ تفصیلیہ ہے: قریشی اور ان کے حلفا بنو غطفان اور ان کے شرکاء کی کل تعداد دس ہزار تھی، جو جنگ خندق میں اکٹھے تھے اور دوسری جنگوں میں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں،یہود کے مختلف قبائل کے مردان جنگی کی تعداد دس ہزار تھی، جو خیبر میں تقریباًیکجائی طور سے لڑے اور باقی جنگو ں میں متفرق طور پر۔ رومی جنہوں نے مدینہ پر دھاوا بول کراس کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہی اور جن سے مقابلہ کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تبوک تشریف لے گئے، ان کی کل تعداد چالیس ہزار تھی۔ منافقین، جنہوں نے تبوک میں ساتھ دینے سے معذرت کر لی، (۸۰) تھے، اور تبوک میں جانے والے (۱۲) یا (۱۳) تھے، انھوں نے واپسی پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو قتل کرنے کا اقدام کیا، لیکن ناکام رہے اور ان میں سے دو تین متذبذب تھے اور انھوں نے توبہ کر لی تھی۔ اس طرح سے یہ کل ساٹھ ہزار نوے دشمن تھے۔ منتر (۲) اس کی سواری اونٹ ہو گا اور اس کی بارہ بیویاں ہوں گی، اس کا درجہ اتنا بلند اور اس کی سواری اتنی تیز ہو گی کہ وہ آسمان کو چھوئے گی اور پھر اتر آئے گی۔ منتر (۴) تبلیغ کر اے احمد، تبلیغ کر جیسے چڑیاں پکے ہوئے پھل والے درخت پر چہچہاتی ہیں۔ تیری زبان اور تیرے دونوں ہونٹ قینچی کے دونوں پھلوں کی طرح چلتے ہیں۔ اس منتر میں ریبھ نام کا انسان مخاطب ہے، یہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کا بعینہ وہی معنی ہے جو عربی میں احمد ہے، یعنی کثرت سے یا سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے والا۔ منتر (۵) حمد کرنے والے اپنی حمدوں کے ساتھ یا نمازی اپنی نمازوں کے ساتھ طاقتور سانڈ کی طرح جنگ میں جاتے ہیں اور ان کی اولاد اپنے گھروں میںیوںمامون رہتی ہے، جیسے گائے اپنے ٹھکانوں میں۔ منتر (۶) اے احمد! اس کلام کو مضبوطی سے پکڑ کہ یہ گایوں اور مالوں کی اساس ہے اور اسے متقیوں تک پہنچا، جیسے بہادر نشانے پر تیر مارتا ہے۔ (ملاحظ ہو: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہندو کتابوں میں، اعداد و ترتیب: امیر حمزہ) انجیل میں : سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں انجیل میں یہ لکھا ہوا تھا: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ مَکْتُوْبٌ فِی اْلإِنْجِیْلِ: لا فَظٌّ وَلاَ غَلِیْظٌ وَلاَ سَخَّابٌ بِالْاَسْوَاقِ وَلا یَجْزِیْ بِالسَّیِّئَۃِ مِثْلَھَا، بَلْ یَعْفُوْ وَیَصْفَحُ۔ یعنی: آپ بدخلق تھے نہ سخت دل‘آپ بازاروں میں شور کرنے والے تھے نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے‘ بلکہ آپ معاف کرتے اور درگزرفرماتے تھے۔ انجیل میں درج ذیل مقامات میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد کے متعلق صاف اشارات موجود ہیں۔ متی :باب ۲۱،آیت۳۳تا ۴۶۔ یوحنا : باب ،۱، آیت۱۹تا ۲۱۔ یوحنا : باب ۱۴،آیت۱۵تا ۱۷ ،و آیت۲۵تا ۳۰۔ یوحنا : باب ۱۵، آیت۲۵، ۲۶۔ یوحنا : باب ۱۶،آیت۷تا ۱۵۔ اب تفصیل ملاحظہ فرمائیں: وہ پیشن گوئیا ں درج ذیل ہیں جو انجیلیوحنا میں مسلسل باب ۱۴سے ۱۶ تک منقول ہوئی ہیں: اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مدد گار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے ، یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کو سکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے نہ جانتی ہے تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہار ے ساتھ رہتاہے اور تمہارے اندر ہے۔ (۱۴:۱۶،۱۷) میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں لیکن مدد گار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا، وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ تم سب تمہیںیاد دلائے گا۔ (۱۴: ۲۵، ۲۶) اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔ (۱۴: ۳۰) لیکن جب وہ مدد گار آئے جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے، تو وہ میری گواہی دے گا۔ (۱۵: ۲۶) لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے، کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا، لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیجوں گا۔ (۱۷: ۷) ابو الاعلی مودودی انجیل کے تغیرات اور تحریفات کی چند وجوہات بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: انجیلیوحنا کی مذکورہ بالا عبارات میں عیسی علیہ السلام اپنے بعد ایک آنے والے کی خبر دے رہے ہیں، جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ دنیا کا سردار (سرورِ عالم) ہو گا۔ ابد تک رہے گا ، سچائی کی تمام راہیں دکھائے گا اور خود ان کییعنی عیسی علیہ السلام کی گواہی دے گا ۔ یوحنا کی ان عبارتوں میں روح القدس اور سچائی کی روح وغیرہ کے الفاظ شامل کر کے مدّعا کو خبط کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے، مگر اس کے باوجود ان سب عبارتوں کو اگر غور سے پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس آنے والے کی خبر دی گئی ہے، وہ کوئی روح نہیں، بلکہ کوئی انسان اور خاص شخص ہے، جس کی تعلیم عالمگیر، ہمہ گیر اور قیامت تک باقی رہنے والی ہو گی۔ اس شخص خاص کے لیے اردو ترجمے میں مدد گار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن: ۵/ ۴۶۲ تا ۴۶۴) سیدہ آمنہ بی بی کو (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا احمد) نام رکھنے کی بشارت فرشتے کی معرفت ایسے ہی ملی تھی، جیسے کہ فرشتے کی بشارت سے ہاجرہ بی بی نے اسماعیل کانام (پیدائش: ۱۱/ ۱۶) اور مریم نے یسوع کا نام (لوقا: 1باب، ۳۰ درس) رکھا تھا۔