Blog
Books
Search Hadith

وحی کی ابتدائ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف نزولِ وحی کی کیفیت اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جبریل علیہ السلام کو دیکھنا

۔ (۱۰۴۸۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِیئَ بِہٖرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّادِقَۃُ فِی النَوْمِ، وَکَانَ لَا َیرٰی رُؤْیًا إِلَّا جَائَ تْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّّ حُبِّبَ اِلَیْہِ الْخَلَائُ فَکَانَ یَأْتِیْ غَارَ حِرَائَ فَیَتَحَنَّثُ فِیْہِ وَھُوَ التَّعَبُّدُ اللَّیَالِیَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ وَیَتَزَوَّدُ لِذٰلِکَ ثُمَّّ یَرْجِعُ لِخَدِیْجَۃَ فَتُزَوِّدُہُ لِمِثْلِھَا حَتّٰی فَجِأَہُ الْحَقُّ وَھُوَ فِیْ غَارِ حِرَائَ فَجَائَہُ الْمَلَکُ فِیْہِ فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِیئٍ، فَأَخَذَنِیْ فَغَطَّنِی حَتّٰی بَلَغَ مِنِّی الْجَھْدُ ثُمَّّ أَرْسَلَنِیْ فَقَالَ: اقْرَأْ فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِیئٍ، فَأَخَذَنِیْ فَغَطَّنِی الثَّانِیَۃَ حَتّٰی بَلَغَ مِنِّی الْجَھْدُ، ثُمَّّ أَرْسَلَنِیْ فَقَالَ: اِقْرَأْ، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِیئٍ، فَأَخَذَنِیْ فَغَطَّنِی الثَّالِثَۃَ حَتّٰی بَلَغَ مِنِّی الْجَھْد، ثُمَّّ أَرْسَلَنِی فَقَالَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ} حَتّٰی بَلَغَ {مَا لَمْ یَعْلَمْ} قَالَ: فَرَجَعَ بِھَا تَرْجُفُ بَوَادِرُہُ، حَتّٰی دَخَلَ عَلٰی خَدِیْجَۃَ فَقَالَ: زَمِّلُوْنِیْ، فَزَمَّلُوْہُ حَتّٰی ذَھَبَ عَنْہُ الرَّوْعُ ، فَقَالَ: یَا خَدِیْجَۃُ! مَا لِیْ؟ فَأَخْبَرَھَا الْخَبْرَ، قَالَ: وَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ، فَقَالَتْ لَہُ: کَلَّا اَبْشِرْ، فَوَاللّٰہِ! لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ أَبْدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ، ثُمَّّ انْطَلَقَتْ بِہٖخَدِیْجَۃُ حَتّٰی أَتَتْ بِہٖوَرَقَۃَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِالْعُزَّی بْنِ قُصَیٍّ، وَھُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِیْجَۃَ أَخِیْ أَبِیْھَا وَکَانَ اِمْرَئً تَنَصَّرَ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ وَکَانَ یَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِیِّ، فَکَتَبَ بِالْعَرَبِیَّۃِ مِنَ الْإِنْجِیْلِ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَکْتُبَ، وَکَانَ شَیْخًا کَبِیْرًا قَدْ عَمِیَ، فَقَالَتْ خَدِیْجَۃُ: أَیِ ابْنَ عَمِّ! اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِیْکَ، فَقَالَ وَرَقَۃُ: ابْنَ أَخِیْ مَا تَرٰی؟ فَأَخْبَرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَا رَأٰی، فَقَالَ رَوَقَۃُ: ھٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ أُنْزِلَ عَلٰی مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلاَمُ، یَالَیْتَنِیْ فِیْھَا جَذَعًا أَکُوْنَ حَیًّا حِیْنَیُخْرِجُکَ قَوْمُکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَوَ مُخْرِجِیَّ ھُمْ؟ )) فَقَالَ وَرَقَۃُ: نَعَمْ، لَمْ یَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِہٖإِلاَّعُوْدِیَ، وَإِنْ یُدْرِکْنِییَوْمُکَ اَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا، ثُمَّّ لَمْ یَنْشَبْ وَرَقَۃُ أَنْ تُوُفِّیَ، وَفَتَرَ الْوَحْیُ فَتْرَۃً حَتّٰی حَزِنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِیْمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْہُ مِرَارًا کَیْیَتَرَدّٰی مِنْ رُؤُوْسِ شَوَاھِقِ الْجِبَالِ، فَکُلَّمَا اَوْفٰی بِذِرْوَۃِ جَبَلٍ لِکَیْیُلْقِیَ نَفْسَہُ مِنْہُ تَبَدّٰی لَہُ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! اِنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَقًّا فَیُسْکِنُ ذٰلِکَ جَأْشَہُ وَتَقَرُّ نَفْسُہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ فَیَرْجِعُ، فَإِذَا طَالَتْ عَلَیِْہِ وَفَتَرَ الْوَحْیُ غَدَا لِمِثْلِ ذٰلِکَ، فَإِذَا أَوْفٰی بِذِرْوَۃِ جَبَلٍ تَبَدّٰی لَہُ جِبْرِیْلُ فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۸۶)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف وحی کی ابتداء نیند میں سچے خوابوں کی صورت میں ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جو خواب بھی دیکھتے، وہ صبح کے پھٹنے کی طرح پورا ہو جاتا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خلوت کو پسند کرنے لگے اور غارِ حرا میں جا کر چند راتیں عبادت کرتے اور ان دنوں کا توشہ لے جاتے، پھر سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی طرف لوٹتے اور اتنے دنوں کے لیے پھر زاد لے جاتے، یہاں تک کہ ایک دن اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حق آ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غارِ حرا میں ہی تھے، فرشتہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: پڑھئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں، چنانچہ اس نے مجھے پکڑ کر اس قدر دبایا کہ مجھے مشقت محسوس ہوئی، پھر اس نے مجھے چھوڑا اور کہا: پڑھو، میں نے کہا: میں پڑھنے والا نہیں ہے، اس نے پھر مجھے پکڑ لیا اور دبایا، حتی کہ مجھے مشقت محسوس ہوئی، پھر اس نے مجھے چھوڑا اور پھر کہا: پڑھیں، میں نے کہا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں، اس نے مجھے پکڑ کر تیسری دفعہ دبایا اور مجھے مشقت محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ … …مَا لَمْ یَعْلَمْ} پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر کو لوٹے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھوں کا گوشت کانپ رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس پہنچے اور فرمایا: مجھے کپڑا اوڑھاؤ۔ پس انھوں نے کپڑا اوڑھا دیا،یہاں تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گھبراہٹ ختم ہو گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خدیجہ! مجھے کیا ہو گیا؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ کو سارا واقعہ سنا دیا اور فرمایا: میں اپنے بارے میں ڈر رہا ہوں۔ لیکن سیدہ نے کہا: ہر گز نہیں، آپ خوش رہیں، پس اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں اور امورِ حق میں مدد کرتے ہیں، پھر سیدہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئی، وہ سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے چچے کا بیٹا تھا، جاہلیت میں عیسائیت کو اختیار کر چکا تھا، چونکہ یہ عربی زبان لکھ سکتا تھا، اس لیے انجیل کو عربی زبان میں لکھتا تھا، یہ بزرگ آدمی تھا اور اب نابینا ہو چکا تھا، سیدہ نے اس سے کہا: اے میرے چچے کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سنو، ورقہ نے کہا: بھتیجے! تو کیا دیکھ رہا ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ساری تفصیل بیان کی، ورقہ نے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے، جو موسی علیہ السلام پر نازل کیا گیا، کاش میں اس وقت مضبوط ہوتا، جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: جی ہاں، جو چیز آپ لائے ہیں، جو آدمی بھی ایسی لے کر آیا ہے، اس سے دشمنی کی گئی ہے اور اگر آپ کے اُس وقت نے مجھے پا لیا تو میں آپ کی خوب مدد کروں گا، لیکن جلد ہی ورقہ وفات پاگیا اور وحی رک گئی، اب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غمگین تھے، بلکہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا غم اس قدر بڑھ گیا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کئی بار چاہا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے گر پڑیں، جب کبھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہاڑ کی چوٹی پر چڑتے تاکہ اپنے آپ کو وہاں سے گرا دیں تو جبریل علیہ السلام سامنے آتے اور کہتے: اے محمد! بیشک آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں، اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دل کا اضطراب کم ہو جاتا اور نفس مطمئن ہو جاتا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوٹ آتے، جب پھر مدت طول پکڑتی اور وحی رکی رہتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر اسی طرح کرتے اور جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے تو جبریل علیہ السلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ظاہر ہوتا اور پہلے والی بات دوہراتا۔
Haidth Number: 10489
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۴۸۹) تخریج: أخرجہ البخاری: ۴۹۵۶، ۶۹۸۲، ومسلم: ۱۶۰،وقولہ: حتی حزن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فیما بلغنا حزنا، … الخ۔ انما ھو من بلاغات الزھری (انظر: ۲۵۹۵۹)

Wazahat

فوائد:… صبح کے پھٹنے سے مراد یہ ہے وہ خواب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیداری میں واضح طور پر پورا ہوتا ہوا نظر آتا، خوابوں کا سلسلہ فرشتے اور وحی کے لیے تمہید ہوتا ہے، اس سلسلے کی وجہ سے بشری قوتیں وحی کا بار برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔ سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مکارم اور خصائل کا ذکر کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تسلی دینا، اس سے معلوم ہوا کہ مکارمِ اخلاق اور خصائل خیریہ برے انجام سے سلامتی کا سبب ہوتے ہیں۔ وحی کا نزول نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو انسانیت میں سب سے بڑا منصب عطا کرنے کے لیے تھا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھوں کے گوشت کا کانپنا، سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مطالبے پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کپڑا اوڑھا دینا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا فرمانا کہ خدیجہ! مجھے کیا ہو گیا؟ میں اپنے بارے میں ڈر رہا ہوں۔ پھر جب کچھ عرصہ تک وحی رکی رہی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حدیث کے آخری حصے میں بیان کی گئی کیفیت میں مبتلا ہو جانا۔ ان امور میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے، جس کی وجہ سے احادیث ِ مبارکہ یا ان کے ثقہ راویوں پر اعتراض کیا جا سکے، اسی قسم کی کیفیتوں کو ہلکا کرنے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غارِ حراء میں جانے کی توفیق بخشی گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے خوابوں کاسلسلہ شروع کیا گیا۔ دراصل ابتداء میں بارِ نبوت کو برداشت کرنا بشری قوتوں کے لیے خاصا مشکل مرحلہ ہوتا ہے، بعد میں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جبریل علیہ السلام کی تاخیر کی وجہ سے پریشان ہو جاتے تھے، جبکہ یہ ہمارا اندازہ ہے، حقیقت میں انبیاء و رسل ہی بہتر جانتے ہیں کہ وصولِ نبوت کا بوجھ کیسا ہوتا ہے، سخت سردی میں نزول وحیکے وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینہ ٹپکنے لگتا تھا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود فرمایا کہ جب وحی گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے تو اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بڑی سختی اور شدت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ صحابۂ کرام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس شدت کی کیفیت کا سوال نہیں کیا، دیکھیں جب موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تجلی کی وجہ سے پہاڑ کو ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے دیکھا تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑے، جبکہ چند لمحے پہلے وہی اللہ تعالیٰ کے دیدار کا اصرار کر رہے تھے۔ آخر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جو اضطراب بیان کیا گیا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ جب کچھ عرصہ وحی کا سلسلہ رکا رہا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ خدشہ ہونے لگا کہ کہیں ایسے تو نہیں ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی ایسا فعل یا سبب سرزد ہوگیا ہو، جس کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سزا مل رہی ہو، یایہ کیفیت اس غم کی وجہ سے تھی، جو وحی کی تاخیر کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر طاری ہو گیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ اطلاع تو نہیں دی گئی تھی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کو بندوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔ غور کریں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مقابلے میں ورقہ بن نوفل کی حیثیت کیا تھی، لیکن وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تسلی دلا رہا ہے، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ انبیاء کے ساتھ ایسے ہی ہوتا ہے۔ بہتریہ ہے کہ اس حدیث ِ مبارکہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جو احساسات بیان کیے گئے ہیں، ان کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا طبعی تقاضا سمجھا جائے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بارِ نبوت اٹھا لیا اور اپنے منصب تک پوری رسائی حاصل کر لی تو پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قابل ہو گئے کہ وحی کی مختلف مجلسوں میں پورا قرآن مجیدوصول کر سکیں، قرآن مجید کے علاوہ وحی کی دوسری اقسام کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے پیغامات موصول کر سکیں، جنت و جہنم کے مناظر دیکھ سکیں، اسراء و معراج کی صورت میں آسمانوں کی سیر کر سکیں، جہنم میں پتھر گرنے اور آسمان کے دروازے کھلنے کی آواز سن سکیں، قبروں میںعذاب میں مبتلا لوگوں کے عذاب کی کیفیت دیکھ سکیں، کثرت ِ عبادت میں اپنی جسمانی غذاکو محسوس کر سکیں، علی ہذا القیاس۔واللہ اعلم بالصواب۔