Blog
Books
Search Hadith

بعض صحابہ کا اپنے دین کو فتنے سے بچانے کے لیے حبشہ کی طرف ہجرت کر جانا اور اس سفر کا اسلام کی پہلی ہجرت ہونا

۔ (۱۰۵۳۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَی النَّجَاشِیْ وَنَحْنُ نَحْوٌ مِنْ ثَمَانِیْنَ رَجُلًا، فِیْھِمْ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ، وَجَعْفَرٌ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُرْفُطَۃَ، وَعُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ، وَأَبُوْ مُوْسٰی فَأَتَوُا النَّجَاشِیَّ، وَبَعَثَتْ قُرَیْشٌ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَعُمَارَۃَ بْنَ الْوَلِیْدِ بِھَدِیَّۃٍ، فَلَمَّا دَخَلَا عَلَی النَّجَاشِیِّ سَجَدَا لَہُ، ثُمَّّ ابْتَدَرَاہُ عَنْ یَمِیْنِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ، ثُمَّّ قَالَا لَہُ: اِنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِیْ عَمِّنَا نَزَلُوْا أَرْضَکَ وَرَغِبُوا عَنَّا وَعَنْ مِلَّتِنَا، قَالَ: فَأَیْنَ ھُمْ؟ قَالُوْا: ھُمْ فِیْ أَرْضِکَ فابْعَثْ اِلَیْھِمْ، فَبَعَثَ اِلَیْھِمْ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: أَنَا خَطِیْبُکُمُ الْیَوْمَ، فَاتَّبَعُوْہُ، فَسَلَّمَ وَلَمْ یَسْجُدْ، فَقَالُوْا لَہُ: مَا لَکَ؟ لَا تَسْجُدُ لِلْمَلِکِ! قَالَ: إِنَّا لَا نَسْجُدُ إِلَّا لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: وَمَا ذٰلِکَ؟ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بَعَثَ اِلَیْنَا رَسُوْلَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَرَنَا أَنْ لَا نَسْجُدَ لِأَحَدٍ اِلَّا اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَأَمَرَناَ بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: فَاِنَّھُمْ یُخَالِفُوْنَکَ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ، قَالَ: مَا تَقُوْلُوْنَ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ وَأُمِّہِ؟ قَالُوْا: نَقُوْلُ کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، ھُوَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ وَرُوْحُہُ، اَلْقَاھَا اِلَی الْعَذْرَائِ الْبَتُوْلِ الَّتِیْ لَمْ یَمَسَّھَا بَشَرٌ وَلَمْ یَفْرِضْھَا وَلَدٌ، قَالَ: فَرَفَعَ عُوْدًا مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّّ قَالَ: یَا مَعْشَرَ الْحَبَشَۃِ وَالْقِسِّیْسِیْنَ وَالرُّھْبَانِ، وَاللّٰہِ! مَا یَزِیْدُوْنَ عَلَی الَّذِیْ نَقُوْلُ فِیْہِ مَا یَسْوِیْ ھٰذَا، مَرْحَبًا بِکُمْ وَبِمَنْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِہِ، اَشْھَدُ اَنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَاِنَّہُ الَّذِیْ نَجِدُ فِی الْاِنْجِیْلِ، وَاِنَّہُ الرَّسُوْلُ الَّذِیْ بَشَّرَ بِہٖعِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ، اَنْزِلُوْا حَیْثُ شِئْتُمْ، وَاللّٰہِ! لَوْ لَا مَا أَنَا فِیْہِ مِنَ الْمُلْکِ لَأَتَیْتُہُ حَتَّی أَکُوْنَ أَنَا أَحْمِلُ نَعْلَیْہِ وَأُوَضِّئُہُ، وَأَمَرَ بِھَدِیَّۃِ الْآخَرِیْنَ فَرُدَّتْ اِلَیْھِمَا، ثُمَّّ تَعَجَّلَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ حَتّٰی أَدْرَکَ بِدْرًا،وَزَعَمَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِسْتَغْفَرَ لَہُ حِیْنَ بَلَغَہُ مَوْتُہُ ۔ (مسند احمد: ۴۴۰۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم کو نجاشی کی طرف بھیج دیا، ہم تقریباً اسی افراد تھے، ان میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود، سیدنا جعفر، سیدنا عبد اللہ بن عرفطہ، سیدنا عثمان بن مظعون اور سیدنا ابو موسیf شامل تھے، پس یہ لوگ نجاشیکی مملکت میں پہنچ گئے، اُدھر قریش نے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید کو تحائف کے ساتھ روانہ کر دیا، جب یہ دوافراد نجاشی کے پاس پہنچے تو انھوں نے اس کو سجدہ کیا اور پھر جلدی جلدی ایک اس کی دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھ گیا، پھر ان دونوں نے کہا: ہمارے چچے کے بیٹوں کا ایک گروہ آپ کے علاقے میں آیا ہوا ہے، انھوں نے ہم سے اور ہمارے دین سے بے رغبتی اختیار کر رکھی ہے۔ بادشاہ نے کہا: وہ اس وقت کہاں ہیں؟ انھوں نے کہا: وہ آپ کے علاقے میں ہیں، آپ ان کو پیغام بھیجیں، پس اس نے ان کی طرف پیغام بھیجا، سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: آج میں تمہاری طرف سے خطاب کروں گا، سب نے ان کی بات مان لی، پس انھوں نے نجاشی کو سلام کہا اور سجدہ نہیں کیا، لوگوں نے کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے، تو بادشاہ کو سجدہ نہیں کر رہا؟ انھوں نے کہا: ہم صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں، اس نے کہا: کیا معاملہ ہے؟ سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا ایک رسول بھیجا ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کریں، نیز ہمیں نماز اور زکوۃ کا بھی حکم دیا ہے، عمرو بن عاص نے کہا: بادشاہ سلامت! یہ لوگ عیسی بن مریم کے معاملے میں آپ کے مخالف ہیں، پس بادشاہ نے کہا: تم لوگ عیسی بن مریم اور ان کی ماں کے بارے میںکیا نظریہ رکھتے ہو؟ صحابہ نے کہا: ہم ان کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، اس نے ان کو کنواری بتول کی طرف ڈالا، جس کنواری کو نہ کسی بشر نے چھوا اور جس پر (عیسی علیہ السلام سے پہلے) کسی بچے کا نشان نہیں تھا۔ یہ تبصرہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک لکڑی اٹھائی اور کہا: اے حبشیو! پادریو اور راہبو! اللہ کی قسم ہے، جو کچھ ہم کہتے ہیں، ان مسلمانوں نے اس سے اس لکڑی کے برابر بھی ہمارے نظریے سے زیادہ بات نہیں کی ہے، اے مسلمانو! خوش آمدید تم کو اور اس کو جس کے پاس سے تم آئے ہو، میں شہادت دیتا ہوں کہ وہ واقعی اللہ کا رسول ہے، بلکہ یہ وہی ہے، جس کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور یہ وہی رسول ہے کہ جس کی بشارت عیسی بن مریم علیہ السلام نے دی تھی، میرے ملک میں جہاں چاہو، رہ سکتے ہو، اللہ کی قسم! اگر میں اس بادشاہت میں مبتلا نہ ہوتا تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچتا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جوتے اٹھاتا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وضو کرواتا، پھر نجاشی نے حکم دیا کہ قریشیوں کے تحائف ان کو واپس کر دیئے جائیں، پھر سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حبشہ سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹ آئے اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے، نیز انھوں نے کہا کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نجاشی کی وفات کا علم ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے بخشش طلب کی۔
Haidth Number: 10539
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۵۳۹) تخریج: اسنادہ ضعیف، حدیج بن معاویۃ، قال ابن معین: لیس بشیئ، وقال ابو حاتم: محلہ الصدق، ولیس مثل اخویہ، فی بعض حدیثہ ضعف، وقال ابن حبان: منکر الحدیث کثیر الوھم علی قلۃ روایتہ، أخرجہ الطیالسی: ۳۴۶، والبیھقی فی الدلائل : ۲/ ۲۹۸ (انظر: ۴۴۰۰)

Wazahat

فوائد:… بتول ایسی خاتون کو کہتے ہیں جو مردوں سے الگ تھلگ رہنے والی ہو اور جس کو مردوں کے ساتھ کوئی رغبت اور شہوت نہ ہو۔ بالآخر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ۵ نبوی میں مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی تھی، حبشہ کا انتخاب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ حبشہ کا بادشاہ نجاشی انصاف پسند حکمران تھا، اس ہدایت کے مطابق بارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی، ان کے سردار سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے اور ان کی بیوی سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بنت ِ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی شریک ِ ہجرت تھیں،یہ ابراہیم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کے بعد پہلا گھرانہ تھا، جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میںہجرت کی تھی۔ جب مسلمانوں پر قریش کی سختیاں اور بڑھ گئیں اور نجاشی نے مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک والا رویہ اختیار کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کو دوسری بار حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا، چنانچہ اب کی بار (۸۲یا۸۳) مردوں اور (۱۸) عورتوں نے ہجرت کی، قریشیوں نے اس دفعہ بھی اپنی چالیں چلیں، جیسا کہ اگلی حدیث سے ثابت ہو رہا ہے، لیکن ناکام رہے۔