Blog
Books
Search Hadith

بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کی مخالفت میں بنوکنانہ اور قریش کا ان امور پر باہمی معاہدہ کہ وہ ان سے نکاح کا معاملہ کریں گے نہ خرید و فروخت کا، نیز اُن کا اِن کو شعب ِ ابی طالب میں محصور کر دینا

۔ (۱۰۵۴۳)۔ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَحْنُ نَازِلُوْنَ غَدًا اِنْ شَائَ اللّٰہُ بِخَیْفِ بَنِیْ کِنَانَۃَیَعْنِیْ الْمُحَصَّبَ حَیْثُ قَاسَمَتْ قُرَیْشٌ عَلَی الْکُفْرِ، وَذٰلِکَ أَنَّ بَنِیْ کِنَانَۃَ حَالَفَتْ قُرَیْشًا عَلٰی بَنِیْ ھَاشِمٍ اَنْ لَّا یُنَاکِحُوْھُمْ وَلَا یُبَایِعُوْھُمْ وَلَا یُؤْوُوْھُمْ۔)) ثُمَّّ قَالَ عِنْدَ ذٰلِکَ: ((لَا یَرِثُ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ وَلَا الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ)) قَالَ الزُّھْرِیُّ: وَالْخَیْفُ الْوَادِیْ ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۰۹)

۔ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (حجۃ الوداع) کے موقع پر فرمایا: ہم کل ان شاء اللہ بنوکنانہ کی وادییعنی وادیٔ محصب میں اتریں گے، یہاں قریش نے کفر پر قسم اٹھائی تھی اور اس مقام پر بنو کنانہ نے قریش کے ساتھ مل کر بنو ہاشم کی مخالفت میں یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ ان سے نکاح والا معاملہ کریں گے نہ خرید و فروخت والا اور نہ ان کوجگہ دیں گے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا۔ امام زہری کہتے ہیں: خیف وادی کو کہتے ہیں۔
Haidth Number: 10543
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۵۴۲) تخریج: اسنادہ ضعیف لانقطاعہ، شریح بن عبید لم یُدرک عمر (انظر: ۱۰۷)

Wazahat

فوائد:… جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیرہ ذوالحجہ کو جمروںکو کنکریاں مارنے سے فارغ ہو کر مکہ مکرمہ کی طرف واپس پلٹنا تھا تو خیف وادی میںپڑاؤ ڈالنے کا عزم کیا، اس وادی کو مُحَصّب، ابطح اور بطحاء بھی کہتے ہیں۔ فوائد:… وادیٔ خیف میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پڑاؤ ڈالنا محض اتفاقاً نہیں تھا، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بالارادہ یہ قیام کیا، جیسا کہ حافظ ابن قیم ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے (زاد المعاد) میں کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقصد یہ تھا کہ اس مقام پر اسلام کے شعائر کا اظہار کیا جائے، جہاں کافروں نے اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے کفر کے شعائر کا اظہار کیا تھا۔ یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت ِ مبارکہ تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کفر و شرک کے مقامات پر توحید کے شعائر کا قیام عمل میں لاتے تھے، جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ مسجد ِ طائف، لات و عزی کے مقام پر تعمیر کی جائے۔ رہا مسئلہ صحیح مسلم کی اس روایت کا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ وادی ٔ ابطح (وادیٔ محصّب) میں اترنا سنت نہیں ہے اورسیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ اس پڑاؤ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ محققین نے اِ ن روایات کے دو جوابات دیے ہیں: (۱) مثبت کو منفی پر مقدّم کیا جاتا ہے، (۲) سرے سے ان دو میں کوئی تضاد اور تناقض نہیں ہے، کیونکہ نفی کرنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ اس مقام پر اترنا حج کے مناسک میں سے نہیں ہے کہ اس کو ترک کرنے کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم آئے اور ثابت کرنے والوں نے چاہا ہے کہ تمام افعال میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیروی کی جائے، وہ بھی اس چیز کو لازم نہیں قرار دیتے۔