Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جبریل علیہ السلام کو اس کی اصلی صورت میں دیکھنا اور کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے معراج والی رات کو اپنے ربّ کو دیکھا ہے یا نہیں؟

۔ (۱۰۵۹۲)۔ عَنْ أبِیْ عُبَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (یَعْنِیْ الْأَشْعَرِیَّ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَنَامُ وَلَا یَنْبَغِیْ لَہُ أَنْ یَنَامَ،یَخْفِضُ الْقِسْطَ وَیَرْفَعُہُ، حِجَابُہُ النَّارُ لَوْ کَشَفَھَا لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْھِہِ کُلَّ شَیْئٍ أَدْرَکَہُ بَصَرُہُ، ثُمَّّ قَرَأَ أَبُوْ عُبَیْدَۃَ {نُوْدِیَ أَنْ بُوْرِکَ مَنْ فِیْ النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا وَسُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} (مسند احمد: ۱۹۸۱۶)

۔ سیدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک نہ اللہ تعالیٰ سوتا ہے اور نہ سونا اس کے شایانِ شان ہے، وہ کسی کے حق میں ترازوں کو جھکاتا ہے اور کسی کے حق میں اٹھا دیتا ہے، اس کا پردہ آگ کا ہے، اگر وہ اس پردے کو چاک کر دے تو اس کے چہرے کے انوار و تجلیات ہر اس چیز کو جلا دیں گے، جہاں تک اس کی نگاہ کا ادراک ہے۔ پھر ابو عبیدہ راوی نے اس آیت کی تلاوت کی: جب موسی وہاں پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے، وہ جو اس کے آس پاس ہے اور پاک ہے اللہ، جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (سورۂ نمل: ۸)
Haidth Number: 10592
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۵۹۲) تخریج: أخرجہ مسلم: ۱۷۹ (انظر: ۱۹۵۸۷)

Wazahat

فوائد:… یہ حدیث اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ دنیا میں مخلوق کے لیے اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن نہیں ہے، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی احادیث بھی عدم رؤیت پر دلالت کرتی ہیں۔ ابو عبیدہ راوی نے جو آیت تلاوت کی، وہ پورا مضمون یوں ہے: {اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِاَہْلِہٖٓاِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا سَاٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَــبَرٍ اَوْ اٰتِیْکُمْ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ۔ فَلَمَّا جَاء َہَا نُوْدِیَ اَنْ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ یٰمُوْسٰٓی اِنَّہٓ اَنَا اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔} … جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنے گھر والوں سے کہا بلاشبہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے، میں عنقریب تمھارے پاس اس سے کوئی خبر لاؤں گا، یا تمھارے پاس اس سے سلگایا ہوا انگارا لے کر آؤں گا، تاکہ تم تاپ لو۔ تو جب وہ اس کے پاس آیا تو اسے آواز دی گئی کہ برکت دی گئی ہے اسے جو آگ میں ہے اور جو اس کے ارد گرد ہے اور اللہ پاک ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اے موسیٰ! بے شک حقیقتیہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں، جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔(سورۂ نمل: ۷، ۸، ۹) یہ اس وقت کا واقعہ ہے، جب موسی علیہ السلام مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آ رہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کے لیے آگ کی بھی ضرورت تھی، جس چیز کو موسی علیہ السلام نے آگ محسوس کیا،یہ کوہ طور کا مقام تھا، جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ سر سبز درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے، یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ تعالیٰ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی۔ جو آگ میں ہے، اس کو برکت دی گئی اس سے مراد اللہ تعالیٰ تھا، آگ سے مراد اس کانور تھا اور اس کے ارد گرد سے مراد موسی علیہ السلام خود اور فرشتے تھے۔ ابو عبیدہ راوی نے یہ آیت پڑھ کر حدیث ِ مبارکہ کے مضمون کو واضح کیا، کیونکہ آیت مقدسہ کے مطابق بھی اللہ تعالیٰ اور موسی علیہ السلام کے درمیان نور حائل تھا۔