Blog
Books
Search Hadith

اسراء و معراج کے بعد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مکہ مکرمہ کی طرف واپس لوٹنا، قریش کو اس چیز کی خبرد ینا اور ان کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جھٹلا دینا

۔ (۱۰۵۹۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَمَّا کَانَ لَیْلَۃُ أُسْرِیَ بِیْ، وَأَصْبَحْتُ بِمَکَّۃَ فَظِعْتُ بِأَمْرِی وَعَرَفْتُ أَنَّ النَّاسَ مُکَذِّبِیَّ۔)) فَقَعَدَ مُعْتَزِلاً حَزِیْناً قَالَ: فَمَرَّ عَدَوُّ اللّٰہِ أَبُوْ جَھْلٍ، فَجَائَ حَتّٰی جَلَسَ إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہُ۔ کَالْمُسْتَھْزِیِٔ۔ ھَلْ کَانَ مِنْ شَیْئٍ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: ((نَعَمْ))قَالَ: مَاھُوَ؟ قَالَ: ((إِنَّہٗاُسْرِیَ بِیَ اللَّیْلَۃَ۔)) قَالَ: إِلٰی أَیْنَ؟ قَالَ: ((إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدَسِ۔)) قَالَ: ثُمَّ اَصْبَحْتَ بَیْنَ ظَھْرَانَیْنَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَلَمْ یَرَ أَنَّہُ یُکَذِّبُہُ مَخَافَۃَ أَن یَّجْحَدَہُ الْحَدِیْثَ إِذَا دَعَا قَوْمَہُ إِلَیْہِ، قَالَ: أَرَأَیْتَ إِنْ دَعَوْتُ قَوْمَکَ تُحَدِّثُھُمْ مَاحَدَّثْتَنِی؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَعَمْ)) فَقَالَ: ھَیَّا مَعْشَرَبَنِی کَعْبِ بْنِ لُؤَیٍّ! فَانَتَفَضَتْ إِلَیْہِ الْمَجَالِسُ، وَجَائُ وْا حَتّٰی جَلَسُوْا إِلَیْھَا، قَالَ: حَدِّثْ قَوْمَکَ بِمَا حَدَّثْتَنِی، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّیْ أُسْرِیَ بِیَ اللَّیْلَۃَ۔)) قَالُوْا: إِلٰی أَیْنَ؟ قَالَ: ((إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدَسِ۔)) قَالُوْا: ثُمَّ أَصْبَحْتَ بَیْنَ ظَھْرَانَیْنَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ)) قَالَ: فَمِنْ بَیْنَ مُصْفِقٍ، وَمِنْ بَیْنِ وَاضِعٍ یَدَہُ عَلٰی رَأْسِہِ مُتَعَجِّباً لِلْکِذْبِ۔ زَعَمَ! قَالُوْا: وَھَلْ تَسْتَطِیْعُ أَنْ تَنْعَتَ لَنَا الْمَسْجِدَ، وَفِی الْقَوْمِ مَنْ قَدْ سَافَرَ إِلٰی ذٰلِکَ الْبَلَدِ وَرَأَی الْمَسْجِدَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَذَھَبْتُ أَنْعَتُ، فَمَازِلْتُ أَنْعَتُ حَتّٰی الْتَبَسَ عَلَیَّ بَعْضُ النَّعْتِ۔ قَالَ: فَجِیَٔ بِالْمَسْجِدِ وَأَنَا أَنْظُرُ حَتّٰی وُضِعَِ دُوْنَ دَارِ عِقَالٍ۔ أَوْ عَقِیْلٍ۔ فَنَعَتُّہُ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَیْہ۔)) قَالَ: وَکاَنَ مَعَ ھٰذَا نَعَتٌ لَمْ أَحْفَظْہُ۔ قاَلَ: فَقَالَ الْقَوْمُ: أَمَّا النَّعْتُ، فَوَاللّٰہِ! لَقَدْ أَصَابَ۔ (مسند احمد: ۲۸۱۹)

۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب مجھے اسرا کرایا گیا اور میں صبح کو مکہ میں پہنچ گیا، میں گھبرا گیا اور مجھے علم ہو گیا کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے، سو آپ خلوت میں غمزدہ ہو کر بیٹھ گئے۔ اللہ کا دشمن ابوجہل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرا، وہ آیا اور آپ کے پاس بیٹھ گیا اور مذاق کرتے ہوئے کہا: کیا کچھ ہوا ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ اس نے کہا: کیا ہوا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج رات مجھے اسرا کرایا گیا ہے۔ اس نے کہا: کہاں تک؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیت المقدس تک۔ اس نے کہا: پھر صبح کو آپ ہمارے پاس بھی پہنچ گئے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ ابوجہل نے سوچا کہ ابھی اس کو نہیں جھٹلاتا، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنی قوم کو بلاؤں اور یہ (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اپنی بات بیان کرنے سے انکا ردے۔ اس لئے ابوجہل نے کہا: اگر میں تیری قوم کو بلاؤں تو تو ان کے سامنے یہی گفتگو بیان کرے گا؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: بنو کعب بن لؤی کی جماعت ادھر آؤ۔ ساری کی ساری مجلسیں اس کی طرف ٹوٹ پڑیں، وہ سب کے سب آ گئے اور ان دونوں کے پاس بیٹھ گئے۔ ابو جہل نے کہا: (اے محمد!) جو بات مجھے بیان کی تھی، ان کوبھی بیان کرو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج رات مجھے اِسراء کرایا گیا۔ انھوںنے کہا: کہاں تک؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیت المقدس تک۔ انھوں نے کہا: پھر صبح کو یہاں بھی پہنچ گئے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ (یہ سن کر) کوئی تالی بجانے لگ گیا اور کوئی (بزعمِ خود) اس جھوٹ پرمتعجب ہو کر اپنے سر کو پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پھر انھوں نے کہا: کیا مسجد اقصی کی علامات بیان کرسکتے ہو؟ ان میں سے بعض لوگوں نے اس علاقے کا سفر بھی کیا ہوا تھا اور مسجد اقصی دیکھی ہوئی تھی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس کی علامتیں بیان کرنا شروع کر دیں، لیکن بعض نشانیوں کے بارے میں اشتباہ و التباس سا ہونے لگا۔ آپ نے فرمایا: مسجد اقصی کی (تمثیل کو) کو لایا گیا اور عقال یا عقیل کے گھر سے بھی قریب رکھ دیا گیا، میں نے اسے دیکھ کر نشانیاں بیان کر دیں، اس کے باوجود مجھے کچھ نشانیاںیاد نہ رہیں۔ لوگوں نے کہا: رہا مسئلہ علامات کا، تو وہ تو اللہ کی قسم! آپ نے درست بیان کر دیں ہیں۔
Haidth Number: 10593
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۵۹۳) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین، أخرجہ البزار: ۵۶، والنسائی فی الکبری : ۱۱۲۸۵، وابن ابی شیبۃ: ۱۱/ ۴۶۱ (انظر: ۲۸۱۹)

Wazahat

فوائد:… اللہ تعالیٰ نے اسراء و معراج کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک معجزہ عطا کر دیا کہ بیت المقدس کی تمثیل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پیش کر دی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں علامتیں بیان کیں کہ تعجب کرنے والوں اور استہزاء کرنے والوں کی بولتی بند ہو گئی۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیت المقدس کی طرف اسراء کرایا گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی رات کو ہی واپس آ گئے اور لوگوں کو اپنے سفر ، بیت المقدس کی علامت اور ان کے قافلے کے بارے میں بتایا، لوگوں نے کہا: کیا ہم محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی باتوںکی تصدیق کریں؟ پھر وہ کفر پر ڈٹ گئے، پس اللہ تعالیٰ (غزوۂ بدر کے موقع پر) ان کی گردنوں کو ابو جہل کے ساتھ ٹکرا دیا، ابو جہل نے (استہزاء کرتے ہوئے) کہا: محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) ہمیں زقوم کے درخت سے ڈراتا ہے، لے آؤ اور کھجور اور مکھن اور کھاؤ (افریقی زبان میں کھجور اور مکھن کو زقوم کہتے تھے)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خواب میں نہیں، بلکہ اپنی آنکھوں سے دجال کو اس کی اصلی شکل میں دیکھا،نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عیسی، موسی اور ابراہیمR کو دیکھا، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دجال کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ بڑے جسم والا اور انتہائی سفید رنگ کا تھا، اس کیایک آنکھ اس طرح ابھری ہوئی تھی کہ گویا کہ وہ روشن ستارہ تھی، اس کے سر کے بال (اس قدر زیادہ تھے کہ) وہ درخت کی شاخوں کی طرح لگ رہا تھا، میں نے عیسی علیہ السلام کودیکھا، وہ سفیدرنگ کے نوجوان تھے، سر کے بال گھنگریالے تھے، وہ تیز نگاہ والے اور پتلے دبلے پیٹ والے تھے، میں نے موسی علیہ السلام کو دیکھا ، وہ سیاہی مائل گندمی رنگ کے اور گھنے بالوں والے تھے۔ حسن راوی نے کہا: ان کے بال سخت تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا، پس میں نے ان کا جو عضو دیکھا، ایسے لگا کہ میں اپنا عضو دیکھ رہا ہوں، گویا کہ وہ تمہارے ساتھی (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی طرح ہی ہیں،