Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدینہ منورہ آمد، اہل مدینہ کا باہر نکلنا اور خواتین و حضرات کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا استقبال کرنا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر میں اترنا

۔ (۱۰۶۲۴)۔ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: اِنِّیْ لَاَسْعٰی فِی الْغِلْمَانِ یَقُوْلُوْنَ: جَائَ مُحَمَّدٌ، فَأَسْعٰی فَـلَا أَرٰی شَیْئًا، ثُمَّّ یَقُوْلُوْنَ: جَائَ مُحَمَّدٌ، فَأَسْعٰی فَـلَا أَرٰی شَیْئًا ، قَالَ: حَتّٰی جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَاحِبُہُ أَبُوْ بَکْرٍ فَکُنَّا فِیْ بَعْضِ حِرَارِ الْمَدِیْنَۃِ ثُمَّّ بَعَثَنَا رَجُلٌ مِنْ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ لِیُؤَذِّنَ بِھِمَا الْاَنْصَارَ فَاسْتَقْبَلَھُمَا زُھَائَ خَمْسِمِائَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ حَتَّی اِنْتَھُوْ اِلَیْھِمَا فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: اِنْطَلِقَا آمِنَیْنِ مُطَاعَیْنِ، فَأَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَاحِبُہُ بَیْنَ أَظْھُرِھِمْ فَخَرَجَ أَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ حَتّٰی اِنَّ الْعَوَاتِقَ لَفَوْقَ الْبُیُوْتِیَتَرَائَیْنَہُیَقُلْنَ: اَیُّھُمْ ھُوَ؟ اَیُّھُمْ ھُوَ؟ قَالَ: رَأَیْنَا مَنْظَرًا مُشْبِھًا بِہٖیَوْمَئِذٍ، قَالَ أَنَسٌ: وَلَقَدْ رَأَیْتُہُیَوْمَ دَخَلَ عَلَیْنَا وَیَوْمَ قُبِضَ فَلَمْ اَرَ یَوْمَیْنِ مُشْبِھًا بِھِمَا۔ (مسند احمد: ۱۳۳۵۱)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں بچوں میں دوڑ کر آتا اور ہم یہ کہہ رہے ہوتے: محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) آ گئے ہیں، پس میں دوڑ کر آتا، لیکن کوئی شخص نظر نہ آتا، پھر جب بچوں کو یہ کہتے ہوئے سنتا: محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) آ گئے ہیں تو میں دوڑ کر آتا، لیکن کوئی چیز نظر نہ آتی، بالآخر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھی سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے، ہم اس وقت مدینہ کے بعض حرّوں میں تھے، پھر ایک آدمی نے ہمیں بھیجا تاکہ انصاریوں کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آمد کا بتایا جائے، پس تقریباً پانچ سو انصاری آئے اور ان دو ہستیوںکے پاس پہنچ گئے اور کہا: تم دونوں امن و اطمینان کے ساتھ آگے بڑھو، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھی دونوں مدینہ منورہ کی طرف متوجہ ہوئے، اُدھر سے اہل مدینہ نکل پڑے، یہاں تک کہ کنواری لڑکیاں گھروں کے چھتوں پر چڑھ گئیں اور کہنے لگیں: ان میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کون ہیں؟ ان میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کون ہیں؟ ہم نے اس دن ایسا منظر دیکھا کہ جس کی (مسرت و شادمانی میں) کسی سے مشابہت ہی نہیں دی جا سکتی۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جس دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تھے، میں نے وہ دن بھی دیکھا تھا، اور جس دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تھی، پس اس دن بھی میں نے ایسا منظر دیکھا کہ جس کی (غم و حزن میں) کسی سے مشابہت ہی نہیں دی جا سکتی۔
Haidth Number: 10624
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۶۲۴) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم وانظر حدیث رقم (۱۰۶۲۱) (انظر: ۱۳۳۱۸)

Wazahat

فوائد:… سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ہجرت سے متعلقہ طویل حدیث بیان کی ہے، اس میں ہے: وَسَمِعَ الْمُسْلِمُونَ بِالْمَدِینَۃِ مَخْرَجَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ مَکَّۃَ فَکَانُوا یَغْدُونَ کُلَّ غَدَاۃٍ إِلَی الْحَرَّۃِ فَیَنْتَظِرُونَہُ حَتّٰییَرُدَّہُمْ حَرُّ الظَّہِیرَۃِ فَانْقَلَبُوا یَوْمًا بَعْدَ مَا أَطَالُوا انْتِظَارَہُمْ فَلَمَّا أَوَوْا إِلٰی بُیُوتِہِمْ أَوْفٰی رَجُلٌ مِنْ یَہُودَ عَلٰی أُطُمٍ مِنْ آطَامِہِمْ لِأَمْرٍ یَنْظُرُ إِلَیْہِ فَبَصُرَ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ مُبَیَّضِینَیَزُولُ بِہٖمُالسَّرَابُفَلَمْیَمْلِکِ الْیَہُودِیُّ أَنْ قَالَ بِأَعْلٰی صَوْتِہِ یَا مَعَاشِرَ الْعَرَبِ ہٰذَا جَدُّکُمُ الَّذِی تَنْتَظِرُونَ فَثَارَ الْمُسْلِمُونَ إِلَی السِّلَاحِ فَتَلَقَّوْا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِظَہْرِ الْحَرَّۃِفَعَدَلَ بِہٖمْذَاتَالْیَمِینِ حَتَّی نَزَلَ بِہٖمْفِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَذَلِکَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ مِنَ شَہْرِ رَبِیعٍ الْأَوَّلِ فَقَامَ أَبُو بَکْرٍ لِلنَّاسِ وَجَلَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَامِتًا فَطَفِقَ مَنْ جَاء َ مِنْ الْأَنْصَارِ مِمَّنْ لَمْ یَرَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحَیِّی أَبَا بَکْرٍ حَتّٰی أَصَابَتِ الشَّمْسُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَقْبَلَ أَبُو بَکْرٍ حَتّٰی ظَلَّلَ عَلَیْہِ بِرِدَائِہِ فَعَرَفَ النَّاسُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ ذٰلِکَ فَلَبِثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً وَأُسِّسَ الْمَسْجِدُ الَّذِی أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی وَصَلَّی فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ رَکِبَ رَاحِلَتَہُ فَسَارَ یَمْشِی مَعَہُ النَّاسُ حَتَّی بَرَکَتْ عِنْدَ مَسْجِدِ الرَّسُولِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَدِینَۃِ۔ … ادھر مدینہ کے مسلمانوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مکہ سے نکل آنے کی خبر سن لی تھی، وہ روزانہ صبح کو مقام حرہ تک (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے استقبال کے لئے) آتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتظار کرتے رہتے یہاں تک دوپہر کی گرمی کی وجہ سے واپس چلے جاتے، ایک دن وہ طویل انتظار کے بعد واپس چلے گئے اور جب اپنے گھروں میں پہنچ گئے تو اتفاق سے ایکیہودی اپنی کسی چیز کو دیکھنے کے لئے مدینہ کے کسی ٹیلہ پر چڑھا اور اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب کو سفید (کپڑوں میں ملبوس) دیکھا کہ سراب ان سے چھپ گیا تو اس یہودی نے بے اختیار بلند آواز سے کہا: اے عربوں کی جماعت! یہ ہے تمہارا نصیب و مقصود، جس کا تم انتظار کرتے تھے۔ یہ سنتے ہی مسلمان اپنے اپنے ہتھیار لے کر امنڈ آئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقام حرہ کے پیچھے استقبال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سب کے ساتھ داہنی طرف کا راستہ اختیار کیا، حتیٰ کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ماہ ربیع الاول پیر کے دن بنی عمرو بن عوف میں قیام فرمایا، پس ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش بیٹھے رہے، جن انصاریوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نہیں دیکھا تھا تو وہ آتے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کہتے (اور سمجھتے کہ یہی محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں) یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دھوپ آگئی اور ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آگے بڑھ کر اپنی چادر سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سایہ کردیا، اس وقت ان لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پہچانا۔ پھر آنحضرت ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بنی عمرو بن عوف میں دس دن سے کچھ اوپر مقیم رہے اور یہیں اس مسجد کی بنیاد ڈالی گئی، جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے اور اس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھی پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر چلے، لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، یہاں تک کہ وہ اونٹنی مدینہ میں (جہاں اب) مسجد نبوی (ہے اس) کے پاس بیٹھ گئی اور وہاں اس وقت کچھ مسلمان نماز پڑھتے تھے اور وہ زمین دو یتیم بچوں کی تھی، …۔ (صحیح بخاری: ۳۶۱۶)