Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدینہ منورہ آمد، اہل مدینہ کا باہر نکلنا اور خواتین و حضرات کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا استقبال کرنا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر میں اترنا

۔ (۱۰۶۲۵)۔ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِیْنَۃَ اِقْتَرَعَتِ الْأَنْصَارُ أَیُّھُمْیَأْوِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَرَعَھُمْ أَبُوْ أَیُّوْبَ فَآوٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ اِذَا اُھْدِیَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طَعَامٌ اُھْدِیَ لِأَبِیْ اَیُّوْبَ قَالَ: فَدَخَلَ أَبُوْ أَیُّوْبَیَوْمًا فَاِذَا قَصْعَۃٌ فِیْھَا بَصَلٌ فَقَالَ: مَا ھٰذَا؟ فَقَالُوْا: أَرْسَلَ بِھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَاطَّلَعَ أَبُوْ أَیُّوْبَ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا مَنَعَکَ مِنْ ھٰذِہِ الْقَصْعَۃِ قَالَ: ((رَأَیْتُ فِیْھَا بَصَلًا۔)) قَالَ: وَلَا یَحِلُّ لَنَا الْبَصَلُ؟ قَالَ: ((بَلٰی فَکُلُوْہُ وَلٰکِنْ یَغْشَانِیْ مَا لَایَغْشَاکُمْ)) وَقَالَ حَیْوَۃُ: ((اِنَّہُیَغْشَانِیْ مَا لَایَغْشَا کُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۹۰۳)

۔ سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصاریوں نے آپس میں قرعہ اندازی کی کہ کون رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے پہلے جگہ دے گا، قرعہ میں سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام نکلا، پس انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے ہاں ٹھہرایا، پھر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھانے کا ہدیہ پیش کیا جاتا تھا تو سیدنا ابوایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی ہدیہ دیا جاتا تھا، ایک دن جب سیدنا ابوایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اندر داخل ہوئے تو ایک پیالے میں پیاز ڈالا ہوا تھا، انھوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھیجا ہے، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس پیالے سے کیوں نہیں کھایا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس میں پیاز دیکھا ہے۔ میں نے کہا: کیایہ ہمارے لیے حلال نہیں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، تم اس کو کھا سکتے ہو، بس میرے پاس (وحی اور فرشتوں کی صورت میں) وہ کچھ آتا ہے، جو تمہارے پاس نہیں آتا۔
Haidth Number: 10625
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۶۲۵) تخریج: حدیث صحیح، أخرجہ النسائی فی الکبری : ۶۶۲۹، والطبرانی فی الکبیر : ۴۰۹۱ (انظر: ۲۳۵۰۶)

Wazahat

فوائد:… سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ہجرت سے متعلقہ طویل حدیث بیان کی ہے، اس میں ہے: وَسَمِعَ الْمُسْلِمُونَ بِالْمَدِینَۃِ مَخْرَجَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ مَکَّۃَ فَکَانُوا یَغْدُونَ کُلَّ غَدَاۃٍ إِلَی الْحَرَّۃِ فَیَنْتَظِرُونَہُ حَتّٰییَرُدَّہُمْ حَرُّ الظَّہِیرَۃِ فَانْقَلَبُوا یَوْمًا بَعْدَ مَا أَطَالُوا انْتِظَارَہُمْ فَلَمَّا أَوَوْا إِلٰی بُیُوتِہِمْ أَوْفٰی رَجُلٌ مِنْ یَہُودَ عَلٰی أُطُمٍ مِنْ آطَامِہِمْ لِأَمْرٍ یَنْظُرُ إِلَیْہِ فَبَصُرَ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ مُبَیَّضِینَیَزُولُ بِہٖمُالسَّرَابُفَلَمْیَمْلِکِ الْیَہُودِیُّ أَنْ قَالَ بِأَعْلٰی صَوْتِہِ یَا مَعَاشِرَ الْعَرَبِ ہٰذَا جَدُّکُمُ الَّذِی تَنْتَظِرُونَ فَثَارَ الْمُسْلِمُونَ إِلَی السِّلَاحِ فَتَلَقَّوْا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِظَہْرِ الْحَرَّۃِفَعَدَلَ بِہٖمْذَاتَالْیَمِینِ حَتَّی نَزَلَ بِہٖمْفِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَذَلِکَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ مِنَ شَہْرِ رَبِیعٍ الْأَوَّلِ فَقَامَ أَبُو بَکْرٍ لِلنَّاسِ وَجَلَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَامِتًا فَطَفِقَ مَنْ جَاء َ مِنْ الْأَنْصَارِ مِمَّنْ لَمْ یَرَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحَیِّی أَبَا بَکْرٍ حَتّٰی أَصَابَتِ الشَّمْسُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَقْبَلَ أَبُو بَکْرٍ حَتّٰی ظَلَّلَ عَلَیْہِ بِرِدَائِہِ فَعَرَفَ النَّاسُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ ذٰلِکَ فَلَبِثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً وَأُسِّسَ الْمَسْجِدُ الَّذِی أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی وَصَلَّی فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ رَکِبَ رَاحِلَتَہُ فَسَارَ یَمْشِی مَعَہُ النَّاسُ حَتَّی بَرَکَتْ عِنْدَ مَسْجِدِ الرَّسُولِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَدِینَۃِ۔ … ادھر مدینہ کے مسلمانوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مکہ سے نکل آنے کی خبر سن لی تھی، وہ روزانہ صبح کو مقام حرہ تک (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے استقبال کے لئے) آتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتظار کرتے رہتے یہاں تک دوپہر کی گرمی کی وجہ سے واپس چلے جاتے، ایک دن وہ طویل انتظار کے بعد واپس چلے گئے اور جب اپنے گھروں میں پہنچ گئے تو اتفاق سے ایکیہودی اپنی کسی چیز کو دیکھنے کے لئے مدینہ کے کسی ٹیلہ پر چڑھا اور اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب کو سفید (کپڑوں میں ملبوس) دیکھا کہ سراب ان سے چھپ گیا تو اس یہودی نے بے اختیار بلند آواز سے کہا: اے عربوں کی جماعت! یہ ہے تمہارا نصیب و مقصود، جس کا تم انتظار کرتے تھے۔ یہ سنتے ہی مسلمان اپنے اپنے ہتھیار لے کر امنڈ آئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقام حرہ کے پیچھے استقبال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سب کے ساتھ داہنی طرف کا راستہ اختیار کیا، حتیٰ کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ماہ ربیع الاول پیر کے دن بنی عمرو بن عوف میں قیام فرمایا، پس ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش بیٹھے رہے، جن انصاریوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نہیں دیکھا تھا تو وہ آتے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کہتے (اور سمجھتے کہ یہی محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں) یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دھوپ آگئی اور ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آگے بڑھ کر اپنی چادر سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سایہ کردیا، اس وقت ان لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پہچانا۔ پھر آنحضرت ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بنی عمرو بن عوف میں دس دن سے کچھ اوپر مقیم رہے اور یہیں اس مسجد کی بنیاد ڈالی گئی، جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے اور اس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھی پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر چلے، لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، یہاں تک کہ وہ اونٹنی مدینہ میں (جہاں اب) مسجد نبوی (ہے اس) کے پاس بیٹھ گئی اور وہاں اس وقت کچھ مسلمان نماز پڑھتے تھے اور وہ زمین دو یتیم بچوں کی تھی، …۔ (صحیح بخاری: ۳۶۱۶)