Blog
Books
Search Hadith

کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا بیان

۔ (۱۰۷۲۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَشٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ، ثُمَّ وَجَّہَہُمْ وَقَالَ: ((انْطَلِقُوْا عَلَی اسْمِ اللّٰہِ، وَقَالَ اَللّٰھُمَّ اَعِنْہُمْ۔)) (یَعْنِی النَّفَرَ الَّذِیْنَ وَجَّہَہُمْ اِلٰی کَعْبِ بْنِ الْاَشْرَفِ)۔ (مسند احمد: ۲۳۹۱)

سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع الغرفد میں تشریف لے گئے اور صحابہ کرام کو ان کے مشن کے لیے روانہ کرتے ہوئے فرمایا: تم اللہ کا نام لے کر چل پڑو۔ اور یہ دعا فرمائی: یا اللہ ان کی مدد فرمانا۔ (یہ وہ گروہ تھا، جس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعب بن اشرف کی طرف روانہ کیا تھا۔)
Haidth Number: 10725
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۷۲۵) تخریج: اسنادہ حسن، أخرجہ الطبرانی: ۱۱۵۵۴، والبزار: ۱۸۰۱، والحاکم: ۲/ ۹۸ (انظر: ۲۳۹۱)

Wazahat

فوائد:… یہ واقعہ صحیح بخاری، سیرت ابن اسحاق اور سیرت موسیٰ بن عقبہ میں بیان ہوا ہے، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میںہجرت کے تیسرے سال کے واقعات کے ضمن میں اسے ذکر کیا ے، ابن اسحاق کا بیان ہے کہ کعب بن اشرف قبیلہ بنو نبہان کی ایک شاخ بنو طیٔکا فرد تھا اور اس کی ماں قبیلہ بنو نضیر سے تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بدر میں جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فتح دے کر عزت سے سرفراز فرمایا تو کعب حسد کی آگ میں جلنے لگا اور اس کے کینہ وبغض میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس نے مکہ جا کر قریش سے اظہار ہمدردی کیا، ان کے مقتولین کے مرثیے کہے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف اکسایا، پھر مدینہ منورہ میں آکر اپنے قصیدوں میں مسلم خواتین کا انتہائی بے ہودگی کے ساتھ ذکر کرنے لگا اس کے رویہ کو دیکھ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ کون ہے جو کعب سے اس کی ان سرگرمیوں کا انتقام لے؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بہت ایذا پہنچائی ہے۔ محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے عرض کیا: آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کے پاس جا کر کچھ ایسی باتیں کر سکوں جن سے وہ خوش ہو جائے اور کسی حد تک میں آپ کے خلاف بھی بات کر سکوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جا کر جو چاہو کہہ سکتے ہو۔ اس کے بعد سیدنا محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کعب بن اشرف کے قتل کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کئے ہوئے وعدہ کو پورا کرنے کے لیے سوچ بچار اور منصوبہ بندی کرتے رہے، اس سلسلہ میں وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی ابو نائلہ سلکان بن سلامہ بن وقش، عباد بن بشربن وقش، حارث بن اوس بن معاذ اور ابو عیسیٰ بن جبر کے پاس گئے اور کعب بن اشرف کے قتل کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کئے ہوئے اپنے وعدے کا ان حضرات سے ذکر کیا۔ سب نے ان سے موافقت کی اور کہا ہم سب اس کام کے لیے حاضر ہیں،یہ سب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس کے پاس جا کرہمیں کچھ ناروا باتیں کرنا پڑیں گی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جو چاہو کہہ لو، وہ تمہیں معاف ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ روانہ ہو کر کعب بن اشرف کے قلعہ پر پہنچے، انہوں نے سب سے پہلے ابو نائلہ سلکا ن بن سلمہ کو آگے بھیجا، اس نے وہاں جا کر اللہ کے دشمن کعب بن اشرف سے کچھ دیر گفتگو کی۔ آپس میں شعروں کا تبادلہ کیا۔ ابو نائلہ بھی شعرو شاعری کرتے تھے، باتوں باتوں میں انہوں نے کعب سے کہا: ابن اشرف! میں تو آپ کے پاس ایک کام کی غرض سے آیا ہوں۔ میں آپ سے اس کا ذکر کرتا ہوں، براہ مہربانی آپ کسی سے اس کا ذکر نہ کریں۔ کعب نے کہا ٹھیک ہے۔تم اپنی بات کہو، انہوں نے کہا کہ اس شخص یعنی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہاں آمد تو ہمارے لیے مصیبت بن گئی ہے۔ سب عرب ہمارے دشمن ہو گئے ہیں، اور ہمیں ایسے الگ کر دیا ہے جیسے کمان سے تیر کو الگ اور لا تعلق کر دیا جاتا ہے۔ ہم ہر طرح سے غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ راستے پر خطر ہیں، اہل وعیال مشکلات کا شکار ہیں اور ہم سب پریشانیوںمیں مبتلا ہیں کعب بولا، میں اشرف کا بیٹا ہوں، اللہ کی قسم! ابن سلامہ! میں تم سے کہا کرتا تھا کہ صورت حال اسی طرح ہو جائے گی، جیسے میں کہتا ہوں، سلکان بولے میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں طعام دیں اور ہم اپنی کوئی چیز آپ کے پاس گروی رکھ دیں۔ ہم آپ سے پختہ وعدہ کریں اور آپ اس مشکل میں ہمارے کام آئیں گے۔ کعب نے کہا: تم لوگ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو، سلکان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا اس طرح آپ ہمیں سب لوگوں میں رسوا کرنا چاہتے ہیں؟ میرے ساتھ اور بھی کچھ لوگ ہیں ان کے خیالات بھی میری طرح ہی ہیں، میں انہیں بھی آپ کے پاس لانا چاہتا ہوں، آپ انہیں بھی کھانا دیں اور اچھا برتاؤ کریں۔ ہم آپ کے پاس ہتھیار گروی رکھ دیں گے۔سلکان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا مقصد یہ تھا کہ جب ہم لوگ ہتھیار لے کر اس کے پاس آئیں تو وہ اس صورت حال سے کچھ اور نہ سمجھ لے، کعب نے کہا: ٹھیک ہے ہتھیاروں کے عوض میں اپنی بات پوری کر دوں گا، اس کے بعد سلکان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور ساری بات ان کو سنائی، اور ان سے کہا کہ وہ اپنے ہتھیار جمع کر لیں، پھر اکٹھے اس کے پاس جائیں گے، اس کے پاس جانے سے پہلے، وہ لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جمع ہوئے۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہمراہ بقیع الغرقد تک تشریف لے گئے، اس کے بعد آپ اپنے گھر کو واپس چلے گئے، وہ ایک چاندنی رات تھی،یہ لوگ کعب کے قلعہ کے قریب پہنچے، کعب اپنی بیوی کے پاس تھا کہ ابو نائلہ نے اسے باہر سے آواز دی۔ ابو نائلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آواز سن کر کعب چادر سمیت جلدی سے اُٹھا، اس کی بیوی نے اس کی چادر کا کونا پکڑا کر کہا آپ کے بہت سے لوگ مخالف ہیں، ایسے لوگ ایسے وقت حفاظتی انتظام کے بغیریوں ہی نہیں جایا کرتے، کعب نے کہا ایسی کوئی بات نہیں،یہ ابو نائلہ ہے اگر میں سو یا ہوا ہوتا تو وہ مجھے نہ جگاتا اس کی بیوی نے کہا مجھے تو اس کی آواز سے خوف محسوس ہو رہا ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ ہیں کہ مجھے تو اس کی آواز سے خون کی بو آرہی ہے کعب نے کہا نہیں نہیں وہ تو میرا رضاعی بھائی ابو نائلہ محمد بن مسلمہ ہے کسی شریف آدمی کو رات کے وقت اگر نیزے مارنے کے لیے بھی بلایا جائے تو وہ ایسی پکار کا انکار نہیں کرتا۔ وہ چادر لپیٹے اسی حالت میں ان کی طرف گیا، اس سے خوشبو کے بھبھوکے آرہے تھے، محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا میں نے آج تک ایسی عمدہ خوشبو نہیں دیکھییہ سن کر وہ پھولا نہ سمایا اور فخر سے کہنے لگا میری ایک بیوی تمام اہلِ عرب سے بڑھ کر عمدہ خوشبو تیار کرتی ہے، محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اجازت ہو تو میں آپ کا سر سونگھ سکتا ہوں؟ کعب نے کہا ہاں ہاں کوئی بات نہیں پھر باقی لوگوں نے بھی باری باری اسے سونگھا، محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک بار پھر کہا اجازت ہو تو میں ایک بار پھر سونگھ لوں؟ کعب نے کہا ہاں ہاں کوئی بات نہیں اس بہانے محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے اچھی طرح قابو کر لیا اور ساتھیوں سے کہا اس پر ٹوٹ پڑو، اور سب نے اسے قتل کر دیا۔ ابن اسحاق اور بغوی وغیرہ کی روایات میں ہے کہ ان میں سے ایک کی تلوار سے حارث بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سر پر زخم آگیا۔یہ لوگ اپنی کاروائی سے فارغ ہو کر وہاں سے نکل بھاگے حارث بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پیچھے رہ گئے ان کے سر سے خون جاری تھا، یہ آگے جا کر اس کی انتظار میں رک گئے، حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان کے پیچھے پیچھے آگئے۔ یہ لوگ اسے اُٹھا کر رات کے آخری حصے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت نماز ادا فرما رہے تھے، انہوں نے جا کر سلام عرض کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریفلائے۔ اور انہوں نے کعب کے قتل کی خبر آپ کو دی اور اس کا سر آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے زخم پر اپنا لعاب مبارک لگایا۔