Blog
Books
Search Hadith

غزوۂ بنو مصطلق میں واقعۂ افک کی وجہ سے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ابتلاء وآزمائش کا بیان

۔ (۱۰۷۵۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ اُمِّ رُوْمَانٍ قَالَتْ: بَیْنَا اَنَا عِنْدَ عَائِشَۃَ اِذْ دَخَلَتْ عَلَیْنَا اِمْرَاَۃٌ مِنَ الْاَنْصَارِ، فَذَکَرَتْ نَحْوَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدمِ وَفِیْہِ: قَالَتْ وَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عُذْرَہَا فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہُ أَبُو بَکْرٍ فَدَخَلَ فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَنْزَلَ عُذْرَکِ۔)) قَالَتْ: بِحَمْدِ اللّٰہِ لَا بِحَمْدِکَ، قَالَتْ: قَالَ لَہَا أَبُو بَکْرٍ: تَقُولِینَ ہٰذَا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَکَانَ فِیمَنْ حَدَّثَ الْحَدِیثَ رَجُلٌ، کَانَ یَعُولُہُ أَبُو بَکْرٍ فَحَلَفَ أَبُو بَکْرٍ أَنْ لَا یَصِلَہُ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَا یَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: بَلٰی! فَوَصَلَہُ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۱۱)

۔(دوسری سند) سیدہ ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تھی کہ ایک انصاری خاتون ہمارے ہاں آئی، اس سے آگے ساری حدیث گزشتہ حدیث کی مانند ہے، البتہ اس میں ہے: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی براء ت نازل کر دی ہے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں واپس اندر آئے اور فرمایا: عائشہ ! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری براء ت نازل کی ہے۔ انھوں نے کہا:اللہ کا شکر ہے، آپ کا نہیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کییہ بات سن کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: تم ایسی بات اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہتی ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر الزام وتہمت لگانے والوں میں سے ایک شخص کی کفالت سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کرتے تھے، اس واقعہ کے بعد انہوں نے قسم اُٹھا لی کہ اب اس کے ساتھ پہلے والا برتاؤ نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔{وَلَا یَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ…} تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور مال دار ہیں وہ اس بات کی قسم نہ اُٹھائیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں، مساکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے آنے والوں کو کچھ نہ دیں گے۔ انہیں چاہیے کہ معاف کر دیںا ور درگزر کریں، کیا تمہیںیہ پسند نہیں کہ اللہ تمہاری خطائیں معاف کر دے۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیوں نہیں، چنانچہ انہوں نے اس کے ساتھ حسن برتاؤ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔
Haidth Number: 10757
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۷۵۷) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد:… سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی عفت اور پاکدامنی کو ثابت کرنے کے موقع پر درج ذیل آیات نازل ہوئیں: {اِنَّ الَّذِیْنَ جَاء ُوْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ مِنْہُمْ لَہ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْکٌ مُّبِیْنٌ۔ لَوْلَا جَاء ُوْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّہَدَاء ِ فَاُولٰیِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ لَمَسَّکُمْ فِیْ مَآ اَفَضْتُمْ فِیْہِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ اِذْ تَلَقَّوْنَہ بِاَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖعِلْمٌوَّتَحْسَبُوْنَہہَیِّنًا وَّہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌ۔ وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِھٰذَا سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٖٓاَبَدًااِنْکُنْتُمْمُّؤْمِنِیْنَ۔ وَیُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ اِنَّ الَّذِیْنَیُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ وَاَنَّ اللّٰہَ رَء ُوْفٌ رَّحِیْمٌ۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّہ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَاء ِ وَالْمُنْکَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَائُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔} … بے شک وہ لوگ جو بہتان لے کر آئے ہیں وہ تمھی سے ایک گروہ ہیں، اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر آدمی کے لیے گناہ میں سے وہ ہے جو اس نے گناہ کمایا اور ان میں سے جو اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا اور کہا کہ یہ صریح بہتان ہے۔ وہ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے، تو جب وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقینا اس بات کی وجہ سے جس میں تم مشغول ہوئے، تم پر بہت بڑا عذاب پہنچتا۔ جب تم اسے ایک دوسرے سے اپنی زبانوں کے ساتھ لے رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں کچھ علم نہیں اور تم اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔ اور کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو کہا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کلام کریں، تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ اللہ تمھیں نصیحتکرتا ہے اس سے کہ دوبارہ کبھی ایسا کام کرو، اگر تم مومن ہو۔ اور اللہ تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیائی پھیلے جو ایمان لائے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ یقینا اللہ بے حد مہربان، نہایت رحم والا ہے (تو تہمت لگانے والوں پر فوراًعذاب آ جاتا)۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو اور جو شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے تو وہ تو بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک نہ ہوتا اور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (النور: ۱۱۔ ۲۲) قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ان آیات کی تفسیر کا مطالعہ بھی کر لیں، سبق آموز باتیں تو مذکورہ بالا حدیث اور آیات سے ہی سمجھ آجاتی ہیں، مزید تفصیل کتاب السیرۃ النبویۃ میں آئے گی۔ صحیح بخاری میں اس واقعہ کی تفصیلیہ ہے: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، انہوں نے تہمت لگانے والوں کا واقعہ بیان کیا، لوگوں نے ان پر تہمت لگائی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پاکیزگی کا اعلان کیا، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، ان میں جس کا نام نکل آتا، اس کو ساتھ لے کر جاتے ایک جنگ (غزوہ بنی مصطلق) میں جانے کے لئے اسی طرح قرعہ اندازی کی،میرا نام نکل آیا، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چلی گئی،یہ واقعہ پردہ کی آیت اترنے کے بعد کا ہے، میں ہودج میں سوار رہتی اور ہودج سمیت اتاری جاتی،ہم لوگ اسی طرح چلتے رہے، یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس غزوہ سے فارغ ہوئے اور لوٹے، (واپسی میں) ہم لوگ مدینہ کے قریب ہی پہنچے تھے کہ رات کے وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روانگی کا اعلان کردیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روانگی کا اعلان کیا تو میں اٹھی اور چلی،یہاں تک کہ لشکر سے آگے بڑھ گئی، جب میں اپنی حاجت سے فارغ ہوئی اور اپنے ہودج کے پاس آئی تو میں نے اپنے سینہ پر ہاتھ پھیرا، معلوم ہوا کہ میرا اظفار کے موتیوں کا ہار ٹوٹ کر گر گیا، میں واپس ہوئی اور اپنا ہار ڈھونڈنے لگی، اس کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی، جو لوگ میرا ہودج اٹھاتے تھے، وہ آئے اور اس ہودج کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا، جس پر میں سوار ہوتی تھی، وہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں اس ہودج میں ہوں، اس زمانہ میں عورتیں عموماً ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، بھاری نہیں ہوتی تھیں، ان کی خوراک قلیل تھی، اس لئے جب ان لوگوں نے ہودج کو اٹھایا، تو اس کا وزن انہیں خلاف معمول معلوم نہ ہوا اور اٹھا لیا، مزید برآں کہ میں ایک کم سن لڑکی تھی، چنانچہ یہ لوگ اونٹ کو ہانک کر روانہ ہوگئے، لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار مل گیا، میں ان لوگوں کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں کوئی نہ تھا، میں نے اس مقام کا قصد کیا، جہاں میں تھی اور یہ خیال کیا کہ جب وہ مجھے نہیں پائیں گے تو تلاش کرتے ہوئے میرے پاس پہنچ جائیں گے، میں اسی انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی کہ نیند آنے لگی اور میں سوگئی، سیدنا صفوان بن معطل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لشکر کے پیچھے تھے، صبح کو میری جگہ پر آئے اور دور سے انہوں نے ایک سویا ہوا آدمی دیکھا تو میرے پاس آئے اور (مجھ کو پہچان لیا) اس لئے کہ پردہ کی آیت اترنے سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے، صفوان کے ( انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھنے سے میں جاگ گئی، وہ میرا اونٹ پکڑ کر پیدل چلنے لگے، یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچ گئے جب کہ لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لئے اتر چکے تھے، تو ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے ہلاک ہی ہونا تھا اور تہمت لگانے والوں کا سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا،خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے اور میں ایک مہینہ تک بیمار رہی تہمت لگانے والوں کی باتیں لوگوں میں پھیلتی رہیں اور مجھے اپنی بیماری کی حالت میں شک پیدا ہوا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس لطف سے پیش نہیں آتے تھے، جس طرح (اس سے قبل) بیماری کی حالت میں لطف و مہربانی سے پیش آیا کرتے تھے، بس اب تو صرف تشریف لاتے، سلام کرتے، پھر پوچھتے: تم کیسی ہو؟ (پھر چلے جاتے) مجھے تہمت کی بات کی خبر بالکل نہ تھی،یہاں تک کہ میں بہت کمزور ہوگئی (ایک رات) میں اور مسطح کی ماں مناصع کی طرف قضائے حاجت کے لئے نکلیں، ہم لوگ رات ہی کو جایا کرتے تھے اور یہ اس وقت کی بات ہے، جب کہ ہم لوگوں کے لیے قضائے حاجت کی جگہ ہمارے گھروں کے قریب نہ تھی اور عرب والوں کے پچھلے معمول کے موافق ہم لوگ جنگل میںیا باہر جا کر رفع حاجت کرتے تھے، میں اور ام مسطح ہم دونوں چلے جا رہی تھیں کہ وہ اپنی چادر میں پھنس کر گر پڑیں اور کہا: مسطح ہلاک ہوجائے، میں نے اس سے کہا: تو نے بہت بری بات کہی ہے، ایسے آدمی کو برا کہتی ہو جو بدر میںشریک ہوا، اس نے کہا : عائشہ! کیا تم نے نہیں سنا جو یہ لوگ کہتے ہیں؟ ساتھ ہی اس نے مجھے تہمت لگانے والوں کی بات بیان کر دی،یہ سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا، جب میں اپنے گھر واپس آئی تو میرے پاس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور فرمایا: تم کیسی ہو؟ میں نے کہا: مجھے اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیجئے اور اس وقت میرا مقصد یہ تھا کہ اس خبر کی بابت ان کے پاس جا کر تحقیق کروں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اجازت دے دی، میں اپنے والدین کے پاس آئی اور اپنی والدہ سے پوچھا کہ لوگ کیا بیان کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: بیٹی! تو ایسی باتوں کی پرواہ نہ کر، جو عورت حسین ہو اور اس کے شوہر کو اس سے محبت ہو اور اس کی سوکنیں ہوں، تو اس قسم کی باتیں بہت ہوا کرتی ہیں، میں نے کہا: سبحان اللہ! اس قسم کی بات سوکنوں نے تو نہیں کی، ایسی بات تو لوگوں میں مشہور ہو رہی ہے، میں نے وہ رات اس حال میں گزاری کہ نہ میرے آنسو تھمے اور نہ مجھے نیند آئی، پھر جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جب وحی اترنے میں دیر ہوئی بلایا اور اپنی بیوی کو جدا کرنے کے بارے میں ان دونوں سے مشورہ کرنے لگے، اسامہ چونکہ جانتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنی بیویوں سے محبت ہے، اس لئے انہوں نے ویسا ہی مشورہ دیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کی بیویوں میں بھلائی ہی جانتا ہوں۔ لیکن سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ!اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی، ان کے علاوہ عورتیں بہت ہیں اور باقی آپ لونڈی (سیدہ بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) سے دریافت کر لیجئے، وہ آپ سے سچ سچ بیان کرے گی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بلایا اور فرمایا: اے بریرہ! کیا تو نے عائشہ میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے، جو تجھے شبہ میں ڈال دے؟ سیدہ بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی، جو عیب کی ہو، بجز اس کے کہ وہ کم سن ہیں اور گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سوجاتیہیں اور بکری آکر کھا جاتی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوگئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کے مقابلہ میں مدد طلب کیاور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو میری مدد کرے گا، اس شخص کے مقابلہ میں جس نے مجھے میرے گھر والوں کے متعلق اذیت دی، حالانکہ اللہ کی قسم ہے، میں اپنے گھر والوں میں بھلائی ہی دیکھتا ہوں اور جس مرد کے ساتھ تہمت لگائی گئی ہے، اس میں بھی بھلائی ہی دیکھتا ہوں، وہ گھر میں میرے ساتھ ہی داخل ہوتا تھا؟ یہ سن کر سیدنا سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کی مدد کے لئے تیار ہوں، اگر وہ قبیلہ اوس کا ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائی خزرج کے قبیلہ کا ہے، تو جیسا حکم دیں، ہم اس کے مطابق عمل کریں گے، یہ سن کر سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے، کھڑے ہوئے، اس سے پہلے وہ نیک آدمی تھے، لیکن حمیت نے انہیں اکسایا اور کہا: اللہ کی قسم! نہ تو اسے مار سکے گا اور نہ تو اس کے قتل پر قادر ہے، پھر سیدنا اسید بن حضیر کھڑے ہوئے اور کہا: تو جھوٹ کہتا ہے، اللہ کی قسم! ہم اس کو قتل کردیں گے، تو منافق ہے، منافقوں کی طرف سے جھگڑا کرتا ہے،دیکھتے ہی دیکھتے اوس اور خزرج دونوں لڑائی کے لئے ابھر گئے، یہاں تک کہ آپس میں لڑنے کا ارادہ کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر ہی تھے، بالآخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر سے اترے اور ان سب کے اشتعال کو فرو کیا،یہاں تک کہ وہ لوگ خاموش ہوگئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی خاموش ہوگئے اور میں سارا دن روتی رہی، نہ تو میرے آنسو تھمتے اور نہ مجھے نیند آتی، صبح کو میرے پاس والدین آئے، میں دو رات اور ایک دن روتی رہی،یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگی تھی کہ رونے سے میرا کلیجہ شق ہوجائے گا، وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اور میں رو رہی تھی کہ اتنے میں ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی، میں نے اسے اجازت دے دی، وہ بیٹھ گئی اور میرے ساتھ رونے لگی، ہم لوگ اس حال میں تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے، حالانکہ اس سے پہلے جب سے کہ میرے متعلق تہمت لگائی گئی، کبھی نہیں بیٹھے تھے، ایک مہینہ تک انتظار کرتے رہے، لیکن میری شان میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبۂ شہادت پڑھا اور پھر فرمایا: اے عائشہ! تمہارے متعلق مجھ کو ایسی ایسی خبر ملی ہے، اگر تو بری ہے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پاکیزگی ظاہر کردے گا اور اگر تو اس میں مبتلا ہوگئی ہے، تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور توبہ کر اس لئے کہ جب بندہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے، پھر توبہ کرلیتا ہے، تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی گفتگو ختم کی تو میرے آنسو دفعتہ رک گئے، یہاں تک کہ میں نے ایک قطرہ بھی محسوس نہیں کیا اور میں نے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جواب دیجئے، لیکن انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیا جواب دوں، پھر میں نے اپنی ماں سے کہا کہ تم میری طرف سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جواب دو، انہوں نے کہا: واللہ! میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیا کہوں، عائشہ کہتی ہیں:میں کمسن تھی اور قرآن زیادہ نہیں پڑھا تھا، میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں جانتی ہوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ چیز سن لی ہے، جو لوگوں میں مشہور ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دل میں وہ بات بیٹھ گئی ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے اگر میںیہ کہوں کہ میں بری ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میری بات کو سچا نہ جانیں گے اور اگر میں کسی بات کا اقرار کرلوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے سچا سمجھیں گے، اللہ کی قسم! میں نے اپنی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مثال یوسف کے والد کے سوا نہیں پائی، جب کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ صبر بہتر ہے اور اللہ ہی میرا مدد گار ہے، ان باتوں میں جو تم بیان کرتے ہو، پھر میں نے بستر پر کروٹ تبدیل کی، مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ میری پاکدامنی ظاہر فرما دے گا، لیکن اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میرے متعلق وحی نازل ہوگی اور اپنے دل میں اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھتی تھی کہ میرے اس معاملہ کا ذکر قرآن میں ہوگا، بلکہ میں سمجھتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری پاکدامنی ظاہر کردے گا، پھر اللہ کی قسم! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس جگہ سے ہٹے بھی نہ تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کی حالت طاری ہوگئی، جو نزول وحی کے وقت طاری ہوا کرتی تھی، سردی کے دن میں بھی آپ کو پسینہ آجاتا تھا۔ پھر وہ کیفیت جب دور ہوئی تو اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ مبارک سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہاری پاکدامنی بیان کردی ہے۔ مجھ سے میری ماں نے کہا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کھڑی ہوجا، میں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں کھڑی نہیں ہوں گی اور صرف اللہ کا شکریہ ادا کروں گی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی {اِنَّ الَّذِیْنَ جَا ء ُوْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ…}جب اللہ تعالیٰ نے میری براء ت میںیہ آیت نازل کی تو سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جو مسطح بن اثاثہ کی ذات پر اس کی قرابت کے سبب خرچ کرتے تھے، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اب میں مسطح کی ذات پر خرچ نہیں کروں گا، اس نے میرے بیٹی عائشہ پر تہمت لگائی ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی: {وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْ ا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} سیدنا ابوبکر کہنے لگے:اللہ کی قسم! میں تو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو بخش دے، پھر مسطح کو وہی وظیفہ دینا شروع کردیا، جو برابر دیتے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے میرے متعلق پوچھتے تھے اور فرماتے: اے زینب! کیا تو جانتی ہے؟ کیا تو نے کبھی کچھ دیکھا ہے؟ وہ جواباً کہتی: یا رسول اللہ! میں اپنے کان اور اپنی آنکھ کو بچاتی ہوں، اللہ کی قسم! میں تو عائشہ کو اچھا ہی جانتی ہوں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: وہی میرے مقابلے میں تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو پرہیزگاری کے سبب سے بچا لیا۔ بَابُ مَا جَائَ فِیْ غَزْوَۃِ الْخَنْدَقِ اَوِ الْاَ حْزَابِ وَغَرْوَۃِ بَنِیْ قُرَیْظَۃَ وَاِھْتِمَامِہِV بِہٰذِہِ الْغَزْوَۃِ وَحَفْرِ خَنْدَقٍ حَوْلَ الْمَدِیْنَۃِ وَاِشْتِرَاکِہِV مَعَ الْاَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ حفْرِہِ وَظُہُوْرِ بَعْضِ مُعْجِزَاتِہِ غزوۂ خندق اور غزوۂ بنی قریظہ کا ذکر اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اس غزوہ کے لیے اہتمام، مدینہ منورہ کے اردگرد خندق کی کھدائی، اور اس کھدائی میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انصار ومہاجرین کے ساتھ شرکت اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعض معجزات کے ظہور کا بیان یہ شوال و ذیقعدہ۵ سن ہجری کا واقعہ ہے، اس غزوے کی ابتدا شوال ۵ ہجری میں ہوئی اور انتہا ایک ماہ کے بعد ذی قعدہ میں ہوئی۔ یہودی انتہائی چالباز اور مکّار قوم ہے، انھوں نے خیبر میں قیام کرنے اور مطمئن ہو جانے کے بعد مسلمانوں کے خلاف سازشیں اور پس پردہ حرکتیںشروع کر دیں اور اہل مدینہ کے خلاف قبائلِ عرب کا ایک نہایت زبردست لشکر لانے میں کامیاب ہو گئے، یہودِ خیبر کے بیس سردار قریش کے پاس گئے اور انہیں اہل مدینہ کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا اور اپنی مدد کا یقین دلایا، جب قریش اس کے لیے تیار ہو گئے تو یہ لوگ بنو غطفان کے پاس گئے، انھوں نے بھی بات مان لی، اس کے بعد وہ متعدد قبائل میں گھومے اور ان میں متعدد قبائل نے جنگ لڑنی منظور کر لی، بعد ازاں سارے قبائل کو ایک منظّم پلان کے تحت اس طرح حرکت دی کہ سب کے سب ایک ہی وقت میں مدینہ کے اطراف میں خندق کے اُس پار پہنچ کر خیمہ زن ہو گئے، یہ کل دس ہزار کا لشکر تھا، ان میں سے قریش اور ان کے پیروکاروں کی تعداد (۴۰۰۰) تھی، ان کے ساتھ ۳۰۰ گھوڑے اور (۱۰۰۰)اونٹ تھے، ان کا سالار ابو سفیان تھا اور جھنڈا عثمان بن طلحہ عبدری نے اٹھا رکھا تھا اور غطفان اور ان کے پیروکار اہل نجد کی تعداد (۶۰۰۰) تھی، مدینہ کی دیواروں تک ایسے زبردست لشکر کا پہنچ جانا بڑی سخت آزمائش اور خطرے کا باعث تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بروقت حالات کی سنگینی کی خبر ہو گئی، چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے جانثاروں سے مشورہ کیا اور سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ خندق کھود کر حفاظت کی جائے، پس یہ رائے پسند کی گئی اور اسی پر اتفاق ہو گیا۔ مدینے کے مشرق، مغرب اور جنوب تین اطراف میں لاوے کی چٹانیں ہیں، اس لیے صرف شمال کی طرف سے لشکر داخل ہو سکتا ہے، اس لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی جانب حرہ شرقیہ اور غربیہ کے درمیان سب سے تنگ مقام کو خندق کے لیے منتخب کیا، خندق کا کام تقسیم کر دیا گیا اور کم و بیش ایک میل کی خندق کھود کر دونوں حرّوں کو ملا دیا گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فدائیوں کی تعداد تقریبا ایک ہزار تھی۔ مشرکین خندق کے اُس پارچکر کاٹ کر ایسا نقطہ تلاش کرنے لگے، جہاں سے خندق پار ہو سکے یا مٹی ڈال کر راستہ بنایا جا سکے، لیکن اِدھر سے مسلمان ان پر تیر برسا کر انہیں خندق کے قریب آنے نہیں دے رہے تھے، مجبوراً مشرکین کو مدینے کا محاصرہ کرنا پڑا، حالانکہ وہ اس کے لیے تیار ہو کر نہیں آئے تھے، کیونکہ چلتے وقت یہ منصوبہ ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا، بہرحال وہ روزانہ دن میں نکلتے اور خندق عبور کرنے کی کوشش کرتے، لیکن اِدھر سے مسلمان اپنے دفاع کے لیے تیار بیٹھے ہوتے تھے، ایک روز مشرکین کے شہسواروں کی ایک جماعت نے ایک تنگ مقام سے خندق پار کر لی، ان میں عمرو بن عبد ود، عکرمہ بن ابی جہل اور ضرار بن خطاب وغیرہ موجود تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عمرو بن عبد ود کو قتل کر دیا اور باقی مشرکین مرعوب ہو کر بھاگ نکلے، نوفل بن عبد اللہ خندق میں جا گرا اور اسے بھی مسلمانوں نے تہ تیغ کر دیا۔ اس جنگ میں فریقین کے چند افراد کام آئے، دس مشرک قتل ہوئے اور چھ مسلمان شہید ہوئے۔ ان غزوے کے دوران بنو قریظہ نے غداری بھی کی تھی، سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے غزوۂ احزاب کے مختلف پہلو بیان کیے ہیں، اگلی احادیث میں کچھ تفصیل کا بیان ہو گا، باقی معلومات سیرت کی کتب سے لی جا سکتی ہیں۔ غزوۂ خندق درحقیقت جان و مال کے نقصان کی جنگ نہیں تھی،یہ اعصاب کی جنگ تھی، اس میں کوئی خونریز معرکہ پیش نہیں آیا، لیکن پھر بھییہ اسلامی تاریخ کی ایک فیصلہ کن جنگ تھی، چنانچہ اس کے نتیجے میں مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے اور یہ واضح ہو گیا کہ عرب کی کوئی قوت مدینہ منورہ میں نشوونما پانے والی طاقت کو ختم نہیں کر سکتی، کیونکہ غزوۂ احزاب میں عربوں کی جتنی بڑی طاقت فراہم ہو گئی تھی، اس سے بڑی طاقت فراہم کرنا ان کے بس کی بات نہ رہی تھی، اس لیے وہ اس واقعہ کے بعد مدینہ منورہ کا رخ نہ کر سکے۔ سیدنا سلیمان بن صرد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ جب غزوۂ خندق والے دن لشکروں کو بھگا دیا گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب ہم (غزوۂ خندق میں شکست سے دوچار ہونے والے مشرکینِ مکہ سے) سے لڑنے کے لیے ان کے علاقے میں گھسیں گے، وہ ہم پر چڑھائی نہیں کریں گے، اب ہم ان کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ (صحیح بخاری) یہ حدیث، اعلامِ نبوت میں سے ایک ہے، کیونکہ جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، ایسے ہی ہوا۔ غزوۂ خندق کے بعد نہ تو مشرکینِ مکہ، مدینہ منورہ کا رخ کر سکے اور نہ کسی میدان میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لشکر کا سامنا کر سکے۔ ۵ سن ہجری میں غزوۂ خندق پیش آیا تھا، ۶ سن ہجری میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے، لیکن عمرہ کی ادائیگی نہ ہو سکی اور حدیبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ سے صلح کا واقعہ پیش آیا، جو مسلمانوں کے حق میں فتح مبین کا پیغام تھا، پھر مشرک یہ معاہدہ برقرار نہ رکھ سکے اور ۸؁ھمیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مکہ مکرمہ فتح کر کے مشرکین مکہ کا سلسلہ ہی ختم کر دیا۔