Blog
Books
Search Hadith

غزوۂ بنو مصطلق میں واقعۂ افک کی وجہ سے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ابتلاء وآزمائش کا بیان

۔ (۱۰۷۵۹)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: خَرَجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَدَاۃٍ قَرَّۃٍ أَوْ بَارِدَۃٍ، فَإِذَا الْمُہَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ یَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ، فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ إِنَّ الْخَیْرَ خَیْرُ الْآخِرَہْ،فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَہْ۔)) فَأَجَابُوہُ: نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدًا،عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِینَا أَبَدًا۔ (مسند احمد: ۱۲۹۸۱)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سرد صبح کو باہر نکلے اور دیکھا کہ مہاجرین اورانصار خندق کھود رہے ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ صحابہ نے جواباً کہا: ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے۔
Haidth Number: 10759
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۷۵۹) تخریج: أخرجہ البخاری: ۲۹۶۱، ۳۷۹۶ ، ومسلم: ۱۸۰۵ (انظر: ۱۲۹۵۱)

Wazahat

فوائد:… ایک روایت میں ہے کہ اُس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جو کی روٹی اور بد بو والا سالن لایا گیا، لیکن ان سب نے کھا لیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آخرت والی بھلائی ہی بھلائی ہے۔ یہ دوجہانوں کے سردار کی حالت ہے، اگر دنیوی زینت و آرائش کوئی قابل فخر چیز ہوتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس سے محروم نہ رکھا جاتا۔ یقینا خیر و بھلائی وہی ہے جو موت کے بعد نصیب ہو گی، کیونکہ دنیا کے ایام خوشحالی میں بیت جائیںیا بد حالی میں گزر جائیں، بالآخر یہاں سے روانہ ہونا پڑتا ہے اور ایسی روانگی کہ جس کے بعد واپسی کی کوئی صورت اور امید نہیں۔ہاں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو مال ودولت عطا کر رکھا ہے، وہ اسیرِ شریعت بن کر زندگی گزاریں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے تقاضے پورے کریں۔ سردی کا موسم ہو، ایک ہزار افراد نے ایک میل لمبی خندق کھودنی ہو، بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر کسے ہوئے ہوں، اشیائے خوردنی کی شدید کمی ہو، اوپر سے دشمن کی اتنی بڑی تعداد سر پر چڑھی آ رہی ہے کہ اس کی وجہ سے اہل مدینہ کے خوف کییہ صورتحال تھی: {اِذْ جَاء ُوْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا۔ ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا۔} … جب وہ تم پر تمھارے اوپر سے اور تمھارے نیچے سے آ گئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کے بارے میں گمان کرتے تھے، کئی طرح کے گمان۔ اس موقع پر ایمان والے آزمائے گئے اور ہلائے گئے، سخت ہلایا جانا۔ (سورۂ احزاب: ۱۰، ۱۱) اگریہ صورتحال تھی تو ایسی ہستیوں نے دنیا کا کیا دیکھا، لیکن دنیا ان کی ترجیح بھی نہیں تھی، بس وہ آخرت کی خیر و بھلائی کے متمنی تھے، جو محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قیادت اور سائے میں ان کو مل رہی تھی۔