Blog
Books
Search Hadith

غزوۂ خندق اور غزوۂ بنی قریظہ کے بعض مشترکہ واقعات اور سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے زخمی ہونے کا واقعہ

۔ (۱۰۷۷۱)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ: أَخْبَرَتْنِی عَائِشَۃُ قَالَتْ: خَرَجْتُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ أَقْفُو آثَارَ النَّاسِ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ وَئِیدَ الْأَرْضِ وَرَائِییَعْنِی حِسَّ الْأَرْضِ، قَالَتْ: فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَمَعَہُ ابْنُ أَخِیہِ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ یَحْمِلُ مِجَنَّہُ، قَالَتْ: فَجَلَسْتُ إِلَی الْأَرْضِ فَمَرَّ سَعْدٌ وَعَلَیْہِ دِرْعٌ مِنْ حَدِیدٍ، قَدْ خَرَجَتْ مِنْہَا أَطْرَافُہُ فَأَنَا أَتَخَوَّفُ عَلٰی أَطْرَافِ سَعْدٍ، قَالَتْ: وَکَانَ سَعْدٌ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ، قَالَتْ: فَمَرَّ وَہُوَ یَرْتَجِزُ وَیَقُولُ: لَیْتَ قَلِیلًایُدْرِکُ الْہَیْجَاء جَمَلْ،مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الْأَجَلْ، قَالَتْ: فَقُمْتُ فَاقْتَحَمْتُ حَدِیقَۃً، فَإِذَا فِیہَا نَفَرٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَإِذَا فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَفِیہِمْ رَجُلٌ عَلَیْہِ سَبْغَۃٌ لَہُ یَعْنِی مِغْفَرًا، فَقَالَ عُمَرُ، مَا جَائَ بِکِ لَعَمْرِی وَاللّٰہِ! إِنَّکِ لَجَرِیئَۃٌ، وَمَا یُؤْمِنُکِ أَنْ یَکُونَ بَلَائٌ أَوْ یَکُونَ تَحَوُّزٌ، قَالَتْ، فَمَا زَالَ یَلُومُنِی حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنَّ الْأَرْضَ انْشَقَّتْ لِی سَاعَتَئِذٍ فَدَخَلْتُ فِیہَا، قَالَتْ: فَرَفَعَ الرَّجُلُ السَّبْغَۃَ عَنْ وَجْہِہِ فَإِذَا طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ، یَا عُمَرُ! وَیْحَکَ إِنَّکَ قَدْ أَکْثَرْتَ مُنْذُ الْیَوْمَ وَأَیْنَ التَّحَوُّزُ أَوْ الْفِرَارُ إِلَّا إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَتْ: وَیَرْمِی سَعْدًا رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مِنْ قُرَیْشٍ،یُقَالُ لَہُ: ابْنُ الْعَرِقَۃِ بِسَہْمٍ لَہُ، فَقَالَ لَہُ: خُذْہَا وَأَنَا ابْنُ الْعَرَقَۃِ، فَأَصَابَ أَکْحَلَہُ فَقَطَعَہُ، فَدَعَا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ سَعْدٌ فَقَالَ: اللَّہُمَّ لَا تُمِتْنِی حَتّٰی تُقِرَّ عَیْنِی مِنْ قُرَیْظَۃَ، قَالَتْ، وَکَانُوا حُلَفَائَہُ وَمَوَالِیَہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَتْ: فَرَقَیَٔ کَلْمُہُ وَبَعَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الرِّیحَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ، فَکَفَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ، وَکَانَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ قَوِیًّا عَزِیزًا، فَلَحِقَ أَبُو سُفْیَانَ وَمَنْ مَعَہُ بِتِہَامَۃَ، وَلَحِقَ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ وَمَنْ مَعَہُ بِنَجْدٍ، وَرَجَعَتْ بَنُو قُرَیْظَۃَ فَتَحَصَّنُوا فِی صَیَاصِیہِمْ، وَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَوَضَعَ السِّلَاحَ وَأَمَرَ بِقُبَّۃٍ مِنْ أَدَمٍ، فَضُرِبَتْ عَلٰی سَعْدٍ فِی الْمَسْجِدِ، قَالَتْ: فَجَائَ ہُ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام، وَإِنَّ عَلٰی ثَنَایَاہُ لَنَقْعَ الْغُبَارِ، فَقَالَ: أَقَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ؟ وَاللّٰہِ! مَا وَضَعَتِ الْمَلَائِکَۃُ بَعْدُ السِّلَاحَ، اخْرُجْ إِلٰی بَنِی قُرَیْظَۃَ فَقَاتِلْہُمْ، قَالَتْ: فَلَبِسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَأْمَتَہُ، وَأَذَّنَ فِی النَّاسِ بِالرَّحِیلِ أَنْ یَخْرُجُوا، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَرَّ عَلٰی بَنِی غَنْمٍ، وَہُمْ جِیرَانُ الْمَسْجِدِ حَوْلَہُ، فَقَالَ: ((مَنْ مَرَّ بِکُمْ؟)) فَقَالُوا: مَرَّ بِنَا دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ، وَکَانَ دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ تُشْبِہُ لِحْیَتُہُ وَسِنُّہُ وَوَجْہُہُ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَام، فَقَالَتْ: فَأَتَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَاصَرَہُمْ خَمْسًا وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً، فَلَمَّا اشْتَدَّ حَصْرُہُمْ وَاشْتَدَّ الْبَلَائُ، قِیلَ لَہُمْ، انْزِلُوا عَلٰی حُکْمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَشَارُوا أَبَا لُبَابَۃَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ، فَأَشَارَ إِلَیْہِمْ أَنَّہُ الذَّبْحُ، قَالُوا: نَنْزِلُ عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((انْزِلُوا عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔)) فَنَزَلُوا، وَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأُتِیَ بِہِ عَلٰی حِمَارٍ، عَلَیْہِ إِکَافٌ مِنْ لِیفٍ قَدْ حُمِلَ عَلَیْہِ، وَحَفَّ بِہِ قَوْمُہُ، فَقَالُوا: یَا أَبَا عَمْرٍو! حُلَفَاؤُکَ وَمَوَالِیکَ وَأَہْلُ النِّکَایَۃِ، وَمَنْ قَدْ عَلِمْتَ، قَالَتْ: وَأَنَّی لَا یُرْجِعُ إِلَیْہِمْ شَیْئًا وَلَا یَلْتَفِتُ إِلَیْہِمْ، حَتّٰی إِذَا دَنَا مِنْ دُورِہِمْ الْتَفَتَ إِلٰی قَوْمِہِ، فَقَالَ: قَدْ آنَ لِی أَنْ لَا أُبَالِیَ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: فَلَمَّا طَلَعَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قُومُوا إِلٰی سَیِّدِکُمْ۔)) فَأَنْزَلُوہُ، فَقَالَ عُمَرُ: سَیِّدُنَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: أَنْزِلُوہُ فَأَنْزَلُوہُ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((احْکُمْ فِیہِمْ۔)) قَالَ سَعْدٌ: فَإِنِّی أَحْکُمُ فِیہِمْ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ، وَتُسْبٰی ذَرَارِیُّہُمْ، وَتُقْسَمَ أَمْوَالُہُمْ، وَقَالَ یَزِیدُ بِبَغْدَادَ: وَیُقْسَمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُکْمِ رَسُولِہِ۔)) قَالَتْ: ثُمَّ دَعَا سَعْدٌ: قَالَ: اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ أَبْقَیْتَ عَلٰی نَبِیِّکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ حَرْبِ قُرَیْشٍ شَیْئًا فَأَبْقِنِی لَہَا، وَإِنْ کُنْتَ قَطَعْتَ الْحَرْبَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ، قَالَتْ: فَانْفَجَرَ کَلْمُہُ، وَکَانَ قَدْ بَرِئَ حَتّٰی مَا یُرٰی مِنْہُ إِلَّا مِثْلُ الْخُرْصِ، وَرَجَعَ إِلٰی قُبَّتِہِ الَّتِی ضَرَبَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَحَضَرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، قَالَتْ: فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، إِنِّی لَأَعْرِفُ بُکَائَ عُمَرَ مِنْ بُکَائِ أَبِی بَکْرٍ، وَأَنَا فِی حُجْرَتِی، وَکَانُوا کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ} قَالَ عَلْقَمَۃُ: قُلْتُ: أَیْ أُمَّہْ! فَکَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُ؟ قَالَتْ: کَانَتْ عَیْنُہُ لَا تَدْمَعُ عَلٰی أَحَدٍ وَلٰکِنَّہُ کَانَ إِذَا وَجِدَ فَإِنَّمَا ہُوَ آخِذٌ بِلِحْیَتِہِ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۱۰)

یزید نے ہمیں بتلایا کہ ہمیں محمد بن عمر و نے اپنے والد سے اور انہوں نے اسے اس کے دادا علقمہ بن وقاص سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ میں خندق والے دن لوگوں کے نقوش پا پر چلتی ہوئی روانہ ہوئی۔ مجھے اپنے پیچھے زمین پر کسیکے چلنے کی آہٹ سنائی دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے اور ان کے ہمراہ ان کے برادر زادے سیدنا حارث بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ڈھال اُٹھائے ہوئے تھے۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:انہیں دیکھ کر میں زمین پر بیٹھ گئی۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قریب سے گزرے تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے لوہے کی ایک زرہ زیب تن کی ہوئی تھی۔ ان کے بازو اور ٹانگیں زرہ سے باہر تھیں مجھے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ان اعضاء کے متعلق خدشہ ہوا کہ کہیں دشمن ان پر حملہ نہ کر دے۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب لوگوں سے طویل القامت تھے۔ وہ قریب سے گزرے تو یہ رجز پڑھتے جا رہے تھے: لَیتَ قَلیلًایُدْرِکُ الہَیْجَائَ جَمَلٌمَا اَحْسَنَ الموتَ اِذَا حَانَ الْاَجَلْ۔ …1 (کاش کہ اونٹ لڑائی میں اپنی قوت وبہادری کے کچھ جوہر دکھا ئے موت کتنی اچھی ہے جس کا وقت آجائے وہ تو آنی ہی ہے۔)اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں: ان کے گزر جانے کے بعد میں اُٹھ کر ایک باغ میں چلی گئی۔ وہاں کچھ مسلمان موجود تھے، انہی میں عمربن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ وہاں ایک آدمی تھا جس کے سر پر خود یعنی لوہے کی ٹوپی تھی ! شعر کے الفاظ کی تحقیق اور مفہوم کی وضاحت کے لیے دیکھیں مسند احمد محقق۔ ج: ۴۲، ص: ۲۷۔ ساتھ ہی اس نے لوہے کا حفاظتی سامان باندھا ہوا تھا جس سے گردن اور زرہ کے سامنے والے حصہ کو محفوظ کیا ہوا تھا۔مجھے دیکھ کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے آپ کیوں آئی ہیں؟ مجھے اپنی زندگی کی قسم! اللہ کی قسم! آپ بڑی دلیر ہیں۔ کیا آپ اس بات سے نہیں ڈریں کہ کوئی پریشانی آسکتیہےیا شدید لڑائی ہو سکتی ہے یا دشمن گرفتار کر سکتا ہے؟ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ وہ برابر مجھے سرزنش کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کا کاش اسی وقت میرے لیے زمین پھٹ جائے اور میں اس میں چلی جاؤں۔ اس مسلح آدمی نے اپنے چہرے سے اوزار ہٹائے تو دیکھا کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، وہ بولے عمر! بڑے افسوس کی بات ہے۔ آپ نے آج بہت زیادتی کر ڈالی۔ کہاں ہے لڑائی اور اللہ تعالیٰ کے سوا فرار کس کی طرف ہو سکتا ہے؟ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں۔ وہ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ ایک مشرک قریشی نے جس کا نام ابن العرقۃ تھا، نشانہ لے کر ان پر تیرچلا دیا۔ اور ساتھ ہی کہا میں ابن عرقہ ہوں، لے میری طرف سے یہ تیر،وہ تیر ان کے بازو کے اکحل نامی رگ پر آکر لگا۔ اور اسے کاٹ ڈالا۔ حضرت سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا یا اللہ تو مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک تو بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھوں کو ٹھندا نہ کر دے۔ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ بنو قریظہ جاہلیت کے دور میںیعنی قبل از اسلام ان کے حلیف اور ساتھی تھے، سیدہ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ ان کے زخم سے خون بہنے لگا، اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر تیز آندھی بھیج دی اور اس نے لڑائی میں اہل ایمان کیکفایت کی، اللہ تعالیٰ بڑا ہی صاحب قوت اور سب پر غالب ہے۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ کی طرف چلے گئے اور عیینہ بن بدر اور اس کے ساتھی نجد کی طرف چلے گئے اور بنو قریظہ واپس آکر اپنے قلعوں میں بند ہو گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ کی طرف واپس آئے، ہتھیار اُٹھا کر رکھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے مسجد میں چمڑے کا ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم صادر فرمایا، اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ اسی دوران جبریل علیہ السلام نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے ان کے دانتوں پر ابھی غبار کے آثار تھے۔ انہوں نے کہا ( اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار اتار کر رکھ دئیے؟ اللہ کی قسم! فرشتوں نے تو ابھی تک ہتھیار نہیں اتارے۔ آپ بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوں اور ان سے قتال کریں۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار سجا لئے اور لوگوں کو (بنو قریظہ کی طرف) روانگی کا حکم دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہوئے تو آپ بنو غنم کے پاس سے گزرے، وہ لوگ مسجد کے پڑوسی تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: ابھی تمہارے پاس سے کون گزر کر گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سے دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گزر کر گئے ہیں، دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی داڑھی، دانت اور چہرہ جبریل علیہ السلام سے مشابہت رکھتا تھا۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بنو قریظہ کی طرف تشریف لے گئے اور پچیس(۲۵) راتوں تک ان کا محاصرہ کیا۔ جب ان کا محاصرہ سخت اور ان کی مصیبت بھی فزوں ہوئی تو ان سے کہا گیا کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو جاؤ۔انہوں نے ابو لبابہ بن عبدالمندر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مشاورت کی تو انہوں نے اشارے سے ان کو بتلا دیا کہ وہ تو تمہیں ذبح، قتل، کریں گے بنو قریظہ نے کہا کہ ہم سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم انہی کے فیصلہ کو تسلیم کر لو۔ انہوں نے بھی اس پر رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغامبھیج کر بلوایا۔ ان کو لایا گیا تو وہ گدھے پر سوار تھے جس پر کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی کاٹھی تھی۔ انہیں گدھے پر سوار کیا گیا تھا اور ان کی قوم کے لوگ ان کے اردگرد تھے انہوں نے کہا اے بو عمرو ! وہ آپ کے حلیف اور دوست ہیں اور وہ بدعہدی بھی کر چکے ہیں ان کا مطلبیہ تھا کہ ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ ان کے سارے احوال سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ وہ ان کی باتیں خاموشی سے سنتے آئے اور ان کی کسی بات کا انہیں جواب نہ دیا۔ اور نہ ہی ان کی طرف انہوں نے دیکھا۔ جب وہ بنو قریظہ کے گھروں کے قریب پہنچے تو اپنی قوم کی طرف رخ کر کے کہا اب مجھ پر ایسا موقعہ آیا ہے کہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کروں۔ابو سعید ( راوی) کہتے ہیں کہ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے سیّدیعنی سردار کی طرف اُٹھ کر جاؤ اور پکڑ کر انہیں گدھے سے اتار و،یہ سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے کہ ہمارا سیّد ( مالک، آقا) تو اللہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں اتارو، انہیں اتارو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا تم ان کی بابت فیصلہ کرو۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا میں ان کے متعلق یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے جن لوگوں نے مسلمانوں سے قتال کیا انہیں قتل کر دیا جائے۔ اور ان کی اولادوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے اموال بطور مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے جائیں۔ ان کا فیصلہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم نے ان کے متعلق ایسا فیصلہ دیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فیصلہ اور منشا کے عین مطابق ہے۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں پھر سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دعا کییا اللہ ! اگر تیرے نبی اور قریش کے درمیان کوئی لڑائی ہونی باقی ہے تو مجھے اس لڑائی میں شرکت کے لیے زندہ رکھ اور اگر تیرے نبی اور قریش کے درمیان کوئی لڑائی ہونے والی نہیں تو مجھے اپنی طرف اُٹھا لے۔ ان کا زخم پھٹ گیا۔ حالانکہ وہ تقریباً ٹھیک ہو چکا تھا اور اس میں سے صرف ایک بالی، کان کے زیور کے بقدر زخمی باقی تھا۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے اس خیمہ کی طرف لوٹ آئے جو ان کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نصب کرایا تھا۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ہاں گئے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اپنے کمرے میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں کے رونے کی آوازوں کو الگ الگ شناخت کر رہی تھی۔ ان صحابہ کی آپس میں محبت ایسی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ} کہ یہ صحابہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے از حد شفیق ومہربان ہیں۔ علقمہ کہتے ہیں میں نے دریافت کیا اماں جان! ایسے مواقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس طرح کیا کرتے تھے؟ فرمایا ان کی آنکھیں کسی کی وفات پر آنسو نہیں بہاتی تھیں۔ لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غمگین ہوتے تو اپنی داڑھی مبارک کو ہاتھ میں پکڑ لیتے تھے۔
Haidth Number: 10771
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۷۷۱) تخریج: بعضہ صحیح، وجزء منہ حسن، وللحدیث شواہد یصح بھا دون قولھا: کانت عینہ لا تدمع علی احد ، أخرجہ ابن حبان: ۷۰۲۸، والطبرانی فی المعجم الکبیر : ۵۳۳۰ (انظر: ۲۵۰۹۷)

Wazahat

Not Available