Blog
Books
Search Hadith

غزوۂ فتح مکہ کی تاریخ اور اہلِ مکہ کے نام حاطب بن ابی بلتعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مکتوب کا واقعہ

۔ (۱۰۸۵۱)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّ حَاطِبَ بْنَ أَبِی بَلْتَعَۃَ کَتَبَ إِلٰی أَہْلِ مَکَّۃَ،یَذْکُرُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرَادَ غَزْوَہُمْ، فَدُلَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْمَرْأَۃِ الَّتِی مَعَہَا الْکِتَابُ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا فَأُخِذَ کِتَابُہَا مِنْ رَأْسِہَا، وَقَالَ: ((یَا حَاطِبُ أَفَعَلْتَ۔)) قَالَ: نَعَمْ، أَمَا إِنِّی لَمْ أَفْعَلْہُ غِشًّا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ یُونُسُ: غِشًّا، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَلَا نِفَاقًا، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللّٰہَ مُظْہِرٌ رَسُولَہُ وَمُتِمٌّ لَہُ أَمْرَہُ غَیْرَ أَنِّی کُنْتُ عَزِیزًا بَیْنَ ظَہْرَیْہِمْ، وَکَانَتْ وَالِدَتِی مِنْہُمْ فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَّخِذَ ہٰذَا عِنْدَہُمْ، فَقَالَ لَہُ: عُمَرُ أَلَا أَضْرِبُ رَأْسَ ہٰذَا؟ قَالَ: ((أَتَقْتُلُ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ بَدْرٍ، مَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدِ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۱۴۸۳۳)

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اہل مکہ کے نام خط لکھ کر ان کو مطلع کر دیا کہ (رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ پر چڑھائی کرنے والے ہیں)۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس عورت کے متعلق اطلاع دے دی گئی جو یہ خط لئے مکہ مکرمہ کی طرف جا رہی تھی۔ آپ نے چند صحابہ کو اس کے پیچھے روانہ کیا۔ اور وہ خط اس کے سر کے بالوں میں سے برآمد کر لیا گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا حاطب! کیا واقعی تم نے ہییہ کام کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں! اللہ کے رسول میں نے یہ کام دھوکہ دہییا نفاق کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو ضرور غالب کرے گا اور ان کو کامیابی نصیب ہو گی اصل بات یوں ہے کہ میں باہر سے آکر مکہ مکرمہ میں آباد ہوا تھا۔ میری والدہ انہی کے درمیان مقیم تھی۔ میں اس طرح اہلِ مکہ پر احسان دھرنا چاہتا تھا۔ یہ باتیں سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا کیا میں اس کا سر قلم نہ کر دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کیا تم ایک بدری کو قتل کر دو گے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف دیکھ کر فرمایا: اب تم جو چاہو عمل کرتے رہو۔
Haidth Number: 10851
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۸۵۱) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم، أخرجہ ابویعلی: ۲۲۶۵، وابن حبان: ۴۷۹۷ (انظر: ۱۴۷۷۴)

Wazahat

فوائد:…درج حدیث میں اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَا وَالزُّبَیْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ: ((انْطَلِقُوا حَتّٰی تَأْتُوا رَوْضَۃَ خَاخٍ فَإِنَّ بِہَا ظَعِینَۃً مَعَہَا کِتَابٌ فَخُذُوہُ مِنْہَا۔)) فَانْطَلَقْنَا تَعَادٰی بِنَا خَیْلُنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الرَّوْضَۃَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِینَۃِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِی الْکِتَابَ، قَالَتْ: مَا مَعِی مِنْ کِتَابٍ، قُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْکِتَابَ أَوْ لَنَقْلِبَنَّ الثِّیَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتِ الْکِتَابَ مِنْ عِقَاصِہَا، فَأَخَذْنَا الْکِتَابَ، فَأَتَیْنَا بِہِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا فِیہِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَۃَ إِلٰی نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ بِمَکَّۃَ،یُخْبِرُہُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا حَاطِبُ! مَا ہٰذَا؟)) قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَیَّ إِنِّی کُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِی قُرَیْشٍ، وَلَمْ أَکُنْ مِنْ أَنْفُسِہَا، وَکَانَ مَنْ کَانَ مَعَکَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ لَہُمْ قَرَابَاتٌ یَحْمُونَ أَہْلِیہِمْ بِمَکَّۃَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِی ذٰلِکَ مِنَ النَّسَبِ فِیہِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِیہِمْیَدًایَحْمُونَ بِہَا قَرَابَتِی، وَمَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ کُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِی وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہُ قَدْ صَدَقَکُمْ۔)) فَقَالَ عُمَرُرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: دَعْنِی أَضْرِبْ عُنُقَ ہٰذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: ((إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا، وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدْ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔)) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر اور سیدنا مقدار کو بھیجا اور فرمایا: تم چلو، یہاں تک کہ روضۂ خاخ تک پہنچ جاؤ، وہاں ایک مسافر خاتون کے پاس ایک خط ہو گا، وہ خط اس سے لے لو۔ سو ہم چل پڑے، ہمارے گھوڑے دوڑتے گئے، یہاں تک کہ ہم اس روضہ کے پاس پہنچے، وہاں تو واقعی ایک خاتون موجود تھی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال دے، اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکال دے، وگرنہ ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے، یہ سن کر اس نے اپنے بالوں کی لٹ سے خط نکال دیا، ہم نے وہ لیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، اس خط میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: یہ خط حاطب بن ابو بلتعہ کی طرف سے مکہ کے مشرکوں کی طرف ہے، …۔ وہ ان کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعض امور کی خبر دے رہے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھ پر جلدی نہ کرنا (میں تفصیل بتاتا ہوں)، بات یہ ہے کہ میں معاہدے کیبنا پر قریشیوں سے ملا ہوا تھا اور میں ان میں سے نہیں تھا، آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں، ان کی قریشیوں سے رشتہ داریاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ مکہ میں ان کے رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہیں، جب میں نے دیکھا کہ قریشیوں سے میرا نسب تو ملتا نہیں ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ اگر میں ان پر کوئی ایسا احسان کر دوں کہ جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی بھی حفاظت کریں (اس مقصد کے لیے میں نے یہ کام کیا ہے)، نہ میں نے یہ کاروائی کفر کرتے ہوئے کی، نہ اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شان یہ ہے کہ اس آدمی نے تم سے سچ بولا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: چھوڑیئے مجھے، میں اس منافق کی گردن اتار پھینکوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بدر میں حاضر ہوا تھا، اور تجھے پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانکا اور کہا: آج کے بعد جو چاہو کرو، میں نے تم کو معاف کر دیا ہے۔ (صحیح بخاری: ۳۰۰۷، ۴۲۷۴، ۴۸۹۰، صحیح مسلم: ۲۴۹۴، واللفظ لاحمد) سیدنا حاطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اہل مکہ کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تیاری اور آمد کی خبر ارسال کی تھی۔ اس حدیث ِ مبارکہ میں صحابۂ کرام کے مقام مرتبہ کو سمجھنے کے لیے بہت بڑا نقطہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زبانِ اقدس سے جن صحابہ کی پیشگی معافی کا اعلان ہو چکا ہے، ان سے بعد میں ہونے والی خطاؤں کو نظر انداز کر دیا جائے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اس مغفرت کا اعلان کروا رہا تھا، اس کو پتہ تھا کہ ان نفوسِ قدسیہ میں سے فلاں آدمی سے اس قسم کی غلطی ہو گی۔ دراصل آغوشِ نبوت کی پروردہ ہستیوں کی نیکیوں کو قبول کرنے اور ان کی بشری تقاضوں کو معاف کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ضابطے امت ِ مسلمہ کے دوسرے افراد سے مختلف ہیں، ایک مثال درج ذیل ہے: سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَا تَسُبُّوْا اَحَدًا مِنْ اَصْحَابِیْ، فَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَوْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا، مَا اَدْرَکَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہُ۔)) … میرے صحابہ میں سے کسی کو برا بھلا مت کہو، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کے خرچ کیے ہوئے ایک مد یا نصف مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔(صحیح بخاری: ۳۶۷۳، صحیح مسلم: ۲۵۴۰) ایک مُدّ کا وزن 525گرام ہوتا ہے، نصف مد کا وزن 262گرام ہوا۔ یہ صحابہ کرام کی نیکیوں کا معیار ہے کہ احد پہاڑ کے برابر کا سونا ان کی صدقہ کی ہوئی گندم، کھجور اور جو کی اس معمولی مقدار کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ دیکھیں سیدنا حاطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اتنا بڑا راز فاش کر رہے ہیں اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو بڑی سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کو منافق سمجھ کر واجب القتل سمجھا، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضاحت فرما دی کہ ان کی معافی کا اعلان تو پیشگی ہو چکا ہے۔ سبحان اللہ۔ لہذا صحابۂ کرام کے بارے میں زبان درازی کی رائے رکھنے والوں کو محتاط رہنا چاہیے اور اپنے نظریوں کی اصلاح کرنی چاہیے۔