Blog
Books
Search Hadith

فتح مکہ کے بعد مکہ پر چڑھائی کرنے کے حرام ہونے اور اس بارے میں رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خطبہ کا بیان

۔ (۱۰۸۸۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ، قَامَ فِی النَّاسِ خَطِیبًا، فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّہُ مَا کَانَ مِنْ حِلْفٍ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ لَمْ یَزِدْہُ إِلَّا شِدَّۃً، وَلَا حِلْفَ فِی الْإِسْلَامِ، (فِیْ رِوَایَۃٍ: وَلَا تُحْدِثُوْا حِلْفًا فِی الْاِسْلَامِ) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: (وَلاہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ)، وَالْمُسْلِمُونَ یَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاہُمْ، تَکَافَأُ دِمَاؤُہُمْ، یُجِیرُ عَلَیْہِمْ أَدْنَاہُمْ، وَیَرُدُّ عَلَیْہِمْ أَقْصَاہُمْ، تُرَدُّ سَرَایَاہُمْ عَلٰی قَعَدِہِمْ، لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ، دِیَۃُ الْکَافِرِ نِصْفُ دِیَۃِ الْمُسْلِمِ، لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ، وَلَا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُہُمْ إِلَّا فِی دِیَارِہِمْ۔))۔ (مسند احمد: ۶۶۹۲)

سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے سال جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! قبل از اسلام کے ایسے معاہدے جن کی رو سے معاہدہ کرنے والے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیںتو اسلام ایسے معاہدوں کو مزید مضبوط کرتا ہے، البتہ اب اسلام میں کسی ایسے نئے معاہدہ کی ضرورت نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے حلیف ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے۔ ایک روایت میںیوں ہے کہ تم اسلام میں ایسا کوئی نیا معاہدہ نہ کرو۔ ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ مکہ فتح ہو جانے کے بعد اب یہاں سے ہجرت نہیں کی جا سکتی، اور تمام مسلمان کفار کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی مانند ہیںاور ان سب کے خون( یعنی ان کی حرمت) برابر ہے، مسلمانوں کا ادنیٰ آدمی بھی کسی دشمن کو پناہ دے تو یہ تمام مسلمانوں کی طرف سے سمجھی جائے گی اور جہاد میں حاصل ہونے والا مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم ہو گا خواہ وہ بہت دور ہی کیوں نہ ہو اور جہاد کے قیدی ان لوگوں میں بھی تقسیم کئے جائیں گے، جو گھروں میں بیٹھے رہے اور میدانِ جہاد میںعملی طور پر شریک نہ ہو سکے اور کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جا سکتا، کافر کی دیت مسلم کے مقابلے میں نصف ہے، کوئی مسلمان سرکاری اہل کار زکوۃ وصول کے لیے جائے تو اسے یہ روا نہیں کہ وہ کسی ایک جگہ قیام کر کے لوگوں سے کہے کہ تم اپنے اپنے تمام جانوروں کو میرے پاس لے کر آؤ تاکہ میں ان کا حساب کر کے زکوۃ وصول کر وں، اس طرح ان لوگوں کو مشقت ہو گی اور یہ بھی جائز نہیں کہ سرکاری اہل کار زکوۃ وصول کرنے کے لیے لوگوں کی قیام گاہوں پر جائے تو وہ زکوۃ سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر ہو جائیںاور لوگوں سے ان کی زکوتیں ان کے گھروں یا قیام گاہوں پر ہی وصول کی جائیں۔
Haidth Number: 10887
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۸۸۷) تخریج: حدیث صحیح، أخرجہ الترمذی: ۱۵۸۵ (انظر: ۶۶۹۲)

Wazahat

فوائد:…یہ حدیث کئی مسائل پر مشتمل ہے، لیکن تمام مسائل اپنے متعلقہ موضوعات میں گزر چکے ہیں۔