Blog
Books
Search Hadith

غزوۂ حنین کے وقوع کی تاریخ اور سبب وغیرہ کا بیان

۔ (۱۰۸۹۷)۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْفِہْرِیِّ قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ حُنَیْنٍ، فَسِرْنَا فِییَوْمٍ قَائِظٍ شَدِیدِ الْحَرِّ، فَنَزَلْنَا تَحْتَ ظِلَالِ الشَّجَرِ، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ لَبِسْتُ لَأْمَتِی وَرَکِبْتُ فَرَسِی فَانْطَلَقْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی فُسْطَاطِہِ، فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَیْکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ حَانَ الرَّوَاحُ، فَقَالَ: ((أَجَلْ۔)) فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ!)) فَثَارَ مِنْ تَحْتِ سَمُرَۃٍ کَأَنَّ ظِلَّہُ ظِلُّ طَائِرٍ، فَقَالَ: لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، وَأَنَا فِدَاؤُکَ فَقَالَ: ((أَسْرِجْ لِی فَرَسِی۔)) فَأَخْرَجَ سَرْجًا دَفَّتَاہُ مِنْ لِیفٍ لَیْسَ فِیہِمَا أَشَرٌ وَلَا بَطَرٌ، قَالَ: فَأَسْرَجَ قَالَ: فَرَکِبَ وَرَکِبْنَا فَصَافَفْنَاہُمْ عَشِیَّتَنَا وَلَیْلَتَنَا فَتَشَامَّتِ الْخَیْلَانِ فَوَلَّی الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِینَ کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عِبَادَ اللّٰہِ أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: ثُمَّ اقْتَحَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ فَرَسِہِ فَأَخَذَ کَفًّا مِنْ تُرَابٍ فَأَخْبَرَنِی الَّذِی کَانَ أَدْنَی إِلَیْہِ مِنِّی ضَرَبَ بِہِ وُجُوہَہُمْ، وَقَالَ: ((شَاہَتِ الْوُجُوہُ۔)) فَہَزَمَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ یَعْلَی بْنُ عَطَائٍ: فَحَدَّثَنِی أَبْنَاؤُہُمْ عَنْ آبَائِہِمْ أَنَّہُمْ قَالُوا: لَمْ یَبْقَ مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا امْتَلَأَتْ عَیْنَاہُ وَفَمُہُ تُرَابًا، وَسَمِعْنَا صَلْصَلَۃً بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ کَإِمْرَارِ الْحَدِیدِ عَلَی الطَّسْتِ الْحَدِیدِ۔ (مسند احمد: ۲۲۸۳۴)

سیدنا ابو عبدالرحمن فہری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں غزوۂ حنین میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، ہم شدید گرمی والے ایک دن میں چلتے رہے، ہم نے درختوں کے سائے کے نیچے قیام کیا، جب سورج ڈھل گیا تو میں نے اپنے ہتھیار سجا لیے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف روانہ ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک خیمہ میں تھے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو، روانگی کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آواز دی، وہ ایک کیکریا ببول کے نیچے سے جلدی سے اُٹھ کر آئے، اس کا سایہ پرندے کے سائے کی طرح تھا، انہوں نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، میں حاضر ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے گھوڑے پر زین کسو۔ انہوں نے زین نکالی، جس کے دونوں پہلو کھجور کی جالی دار جھلی کے تھے، جن میں فخروغرور کا کوئی عنصر نہ تھا، پس انہوں نے زین کس دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھوڑے پر سوار ہو گئے اور ہم بھی اپنی اپنی سواریوں پر سوار ہو گئے، جب ہم دن کے پچھلے پہر اور ساری رات دشمن کے بالمقابل صف آراء رہے۔ دونوں گروہوں کی انتہائی کوشش تھی کہ وہ اپنے فریق مخالف پر غالب رہے، مسلمان پیٹھ دے کر ہٹ آئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا قرآن کریممیں تذکرہ کیا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے بندو! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: اے مہاجرین کی جماعت ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھوڑے سے اتر آئے اور جو آدمی میری نسبت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب تر تھا، اس نے بتایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مٹھی بھر مٹی لے کر ان کے چہروں کی طرف پھینکی اور فرمایا: یہ چہرے رسوا اور ذلیل ہو گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو ہزیمت دی۔ یحییٰ بن عطاء نے حماد بن سلمہ کو بیان کیا کہ کفار کی اولاد نے اپنے آباء سے روایت کیا کہ انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے ہر ایک کی آنکھیں اور منہ مٹی سے بھر گئے اور ہم نے آسمان اور زمین کے درمیان ایسی آواز سنی، جیسے لوہے کے تھال پر لوہا گھسیٹنے سے پیدا ہوتی ہے۔
Haidth Number: 10897
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۸۹۷) تخریج: حسن لغیرہ، أخرجہ ابن ابی شیبۃ: ۱۴/ ۵۲۹، والدارمی: ۲۴۵۲، والطبرانی: ۲۲/ ۷۴۱ (انظر: ۲۲۴۶۷)

Wazahat

فوائد:…غزوہ کی ابتدا میں مسلمانوں کی شکست کی دو وجوہات ہیں ۱۔ لشکر ِ اسلام کو چھپے ہوئے دشمن کا علم نہ تھا، ابھی وہ اتر ہی رہا تھا کہ اچانک دشمن نے ٹڈی دل کی طرح تیروں کی بارش کر دی، پھر وہ فرد واحد کی طرف ٹوٹ پڑا، اس اچانک حملے سے ہراول دستے میں اضطراب پھیل گیا اور اس میں موجود مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ۲۔ ایک مسلمان نے کہا تھا کہ اس غزوہ میں ہم قلت کی وجہ سے شکست نہیں کھائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ وَّیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْــــًـا وَّضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ۔} … بلاشبہ یقینا اللہ نے بہت سی جگہوں میں تمھاری مدد فرمائی اور حنین کے دن بھی، جب تمھاری کثرت نے تمھیں خود پسند بنا دیا، پھر وہ تمھارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین تنگ ہوگئی، باوجود اس کے کہ وہ فراخ تھی، پھر تم پیٹھ پھیرتے ہوئے لوٹ گئے۔ (سورۂ توبہ: ۲۵) گویا معاملہ ایسا نہیں ہے، اسلامی لشکر کی بنیاد اللہ تعالیٰ پر توکل ہے۔