Blog
Books
Search Hadith

عدی بن حاتم طائی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آمد اور قبولِ اسلام

۔ (۱۰۹۲۵)۔ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: جَاء َتْ خَیْلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوْ قَالَ: رُسُلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا بِعَقْرَبَ، فَأَخَذُوا عَمَّتِی وَنَاسًا، قَالَ: فَلَمَّا أَتَوْا بِہِمْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فَصَفُّوا لَہُ۔)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَأَی الْوَافِدُ وَانْقَطَعَ الْوَلَدُ وَأَنَا عَجُوزٌ کَبِیرَۃٌ مَا بِی مِنْ خِدْمَۃٍ فَمُنَّ عَلَیَّ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکَ، قَالَ: ((مَنْ وَافِدُکِ؟)) قَالَتْ: عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: ((الَّذِی فَرَّ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ۔)) قَالَتْ: فَمَنَّ عَلَیَّ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَجَعَ وَرَجُلٌ إِلٰی جَنْبِہِ نَرٰی أَنَّہُ عَلِیٌّ، قَالَ: سَلِیہِ حِمْلَانًا، قَالَ: فَسَأَلَتْہُ، فَأَمَرَ لَہَا، قَالَتْ: فَأَتَتْنِی، فَقَالَتْ: لَقَدْ فَعَلْتَ فَعْلَۃً مَا کَانَ أَبُوکَ یَفْعَلُہَا، قَالَتْ: ائْتِہِ رَاغِبًا أَوْ رَاہِبًا، فَقَدْ أَتَاہُ فُلَانٌ فَأَصَابَ مِنْہُ وَأَتَاہُ فُلَانٌ فَأَصَابَ مِنْہُ، قَالَ: فَأَتَیْتُہُ فَإِذَا عِنْدَہُ امْرَأَۃٌ وَصِبْیَانٌ أَوْ صَبِیٌّ فَذَکَرَ قُرْبَہُمْ مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَرَفْتُ أَنَّہُ لَیْسَ مَلِکَ کِسْرٰی وَلَا قَیْصَرَ، فَقَالَ لَہُ: ((یَا عَدِیُّ بْنَ حَاتِمٍ مَا أَفَرَّکَ أَنْ یُقَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ، فَہَلْ مِنْ إِلٰہٍ إِلَّا اللَّہُ، مَا أَفَرَّکَ أَنْ یُقَالَ اللّٰہُ أَکْبَرُ، فَہَلْ شَیْئٌ ہُوَ أَکْبَرُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ؟)) قَالَ: فَأَسْلَمْتُ فَرَأَیْتُ وَجْہَہُ اسْتَبْشَرَ وَقَالَ: ((إِنَّ الْمَغْضُوبَ عَلَیْہِمْ الْیَہُودُ،وَالضَّالِّینَ النَّصَارٰی۔)) ثُمَّ سَأَلُوہُ، فَحَمِدَ اللّٰہَ تَعَالٰی وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ فَلَکُمْ أَیُّہَا النَّاسُ! أَنْ تَرْضَخُوا مِنْ الْفَضْلِ۔)) ارْتَضَخَ امْرُؤٌ بِصَاعٍ بِبَعْضِ صَاعٍ بِقَبْضَۃٍ بِبَعْضِ قَبْضَۃٍ، قَالَ شُعْبَۃُ: وَأَکْثَرُ عِلْمِی أَنَّہُ قَالَ: بِتَمْرَۃٍ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، إِنَّ أَحَدَکُمْ لَاقِی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَائِلٌ: مَا أَقُولُ أَلَمْ أَجْعَلْکَ سَمِیعًا بَصِیرًا، أَلَمْ أَجْعَلْ لَکَ مَالًا وَوَلَدًا، فَمَاذَا قَدَّمْتَ؟ فَیَنْظُرُ مِنْ بَیْنِیَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ وَعَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ فَلَا یَجِدُ شَیْئًا، فَمَا یَتَّقِی النَّارَ إِلَّا بِوَجْہِہِ، فَاتَّقُوا النَّارَ، وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوہُ فَبِکَلِمَۃٍ لَیِّنَۃٍ، إِنِّی لَا أَخْشٰی عَلَیْکُمُ الْفَاقَۃَ، لَیَنْصُرَنَّکُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَلَیُعْطِیَنَّکُمْ أَوْ لَیَفْتَحَنَّ لَکُمْ حَتّٰی تَسِیرَ الظَّعِینَۃُ بَیْنَ الْحِیرَۃِ ویَثْرِبَ، أَوْ أَکْثَرَ مَا تَخَافُ السَّرَقَ عَلٰی ظَعِینَتِہَا، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ثَنَاہُ شُعْبَۃُ مَا لَا أُحْصِیہِ وَقَرَأْتُہُ عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۰۰)

سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے روانہ کئے ہوئے گھڑ سوار آئے تو میں ان دنوں یمامہ کے علاقے میں عقرب کے مقام پر تھا، وہ لوگ میری پھوپھی اور چند لوگوں کو پکڑ کر لے گئے، جب وہ ان کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے لے گئے تو ان کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کھڑا کر دیا گیا،میری پھوپھی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے مردوں میں سے جو آپ کی خدمت میں آسکتا تھا، وہ بہت دور ہے، بچے جدا ہو گئے، میں بہت بوڑھی ہوں، میں کچھ کر بھی نہیں سکتی، آپ مجھ پر احسان کریں، اللہ آپ پر احسان کرے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تمہاری طرف سے کون مرد آسکتا تھا؟ اس نے کہا: عدی بن حاتم، آپ نے فرمایا: وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بچتے ہوئے فرار ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: بہرحال آپ مجھ پر احسان کریں، وہ کہتی ہیں: جب اللہ کے رسول واپس آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا، ہمارا خیال ہے کہ وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، اس آدمی نے میری پھوپھی سے کہا: تم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سواری طلب کرو، اس نے سواری کی درخواست کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ اسے سواری مہیا کر دی جائے۔ عدی کہتے ہیں: میری پھوپھی میرے پاس آئیتو اس نے کہا کہ تو نے جنگ سے فرار ہو کر ایسا بزدلانہ کام کیا ہے کہ تمہارا باپ ایسا نہیں کرتا تھا۔ تم دین کی رغبت کے ساتھ یا ڈرتے ہوئے جیسے بھی ہو، اس نبی کے پا س پہنچو، فلاں اور فلاں آدمی ان کے پاس گیا تو اسے بہت کچھ ملا، عدی کہتے ہیں: میں آپ کی خدمت میں آیا تو اس وقت آپ کے پاس ایک عورت اور چند بچے، یا ایک بچہ موجود تھا، عدی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ہونے کا ذکر کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں جان گیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسریٰ اور قیصر جیسے بادشاہ نہیں ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عدی سے فرمایا: تم لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہنے کے ڈر سے کیوں فرار ہو ئے؟ کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے، تم اللہ اکبر کہنے سے کیوں بھاگ گئے؟ کیا اللہ تعالیٰ سے بھی بڑا کوئی ہے؟ عدی کہتے ہیں، چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی باتیں سن کر میں مسلمان ہو گیا، میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ دمک اُٹھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مغضوب علیمیعنی جن لوگوں پر اللہ کا غضب ہوا، ان سے مراد یہودی ہیں اور ضالینیعنی گمراہ لوگوں سے عیسائی مراد ہیں۔ کچھ بدوؤں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ مانگا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا: لوگو! تم اپنی ضرورت سے زائد اشیاء میں سے کچھ نہ کچھ دو۔‘ یہ سن کر کوئی ایک صاع اور کوئی اس سے بھی کم اور کوئی مٹھی بھر لے کر آیا کوئی اس سے کم لایا۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میرے علم کے مطابق کوئی کھجور لایا اور کوئی کھجور کا ایک ٹکڑا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے والا ہے تو اللہ اس سے فرمائے گا کیا میں نے تجھے سننے والا دیکھنے والا نہیں بنایا تھا؟ کیا میں نے تجھے مال و اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ تو کیا کر کے آیا ہے؟ یہ آدمی اپنے آگے پیچھے، دائیں بائیں دیکھے گا تو اپنے لیے کچھ بھی نہیں پائے گا، وہ اپنے چہرے سے ہی آگ سے بچنے کی کوشس کرے گا، مگر بچ نہیں سکے گا، لہذا لوگو! تم جہنم سے بچنے کا سامان کر لو، اگر چہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہیں ہو، اگر تم اتنی چیز بھی نہیں پاؤ تو اچھی بات کر کے ہی جہنم سے بچاؤ کا سامان کر لو، مجھے تم پر فقرو فاقہ کا ڈر نہیں، اللہ تعالیٰ ضرورتمہاری مدد کرے گا اور تمہیں بہت کچھ عطا فرمائے گا، یایوں فرمایا کہ تمہیں ضرور فتوحات سے نوازے گا، یہاں تک کہ ایک اونٹ سوار خاتون حیرہ سے یثرب تک کا یا اس سے بھی زیادہ سفر کر ے گی اور اسے چوری کا کوئی ڈر خوف ہو گا۔ امام احمد کے شیخ محمد بن جعفر کہتے ہیں کہ ہمارے استاز شعبہ نے بے شمار مرتبہ یہ حدیث ہمیں سنائی اور میں نے بھی ان کے سامنے بہت مرتبہ پڑھی،یعنییہ حدیث اہل علم کے ہاں ثابت اور مشہور ہے۔
Haidth Number: 10925
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۹۲۵) تخریج: بعضہ صحیح، وفی ھذا الاسناد عبّاد بن حبیش لایعرف، أخرجہ الترمذی: ۲۹۵۳ (انظر: ۱۹۳۸۱)

Wazahat

فوائد:…جامع ترمذی کی روایت، جو کہ صحیح ہے، کا سیاق درج ذیل ہے: سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ فَقَالَ الْقَوْمُ: ہٰذَا عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ وَجِئْتُ بِغَیْرِ أَمَانٍ وَلَا کِتَابٍ فَلَمَّا دُفِعْتُ إِلَیْہِ أَخَذَ بِیَدِی وَقَدْ کَانَ قَالَ قَبْلَ ذٰلِکَ إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ یَجْعَلَ اللّٰہُ یَدَہُ فِییَدِی، قَالَ فَقَامَ فَلَقِیَتْہُ امْرَأَۃٌ وَصَبِیٌّ مَعَہَا فَقَالَا: إِنَّ لَنَا إِلَیْکَ حَاجَۃً، فَقَامَ مَعَہُمَا حَتّٰی قَضٰی حَاجَتَہُمَا ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِی حَتّٰی أَتٰی بِی دَارَہُ فَأَلْقَتْ لَہُ الْوَلِیدَۃُ وِسَادَۃً فَجَلَسَ عَلَیْہَا وَجَلَسْتُ بَیْنَیَدَیْہِ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((مَا یُفِرُّکَ أَنْ تَقُولَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَہَلْ تَعْلَمُ مِنْ إِلٰہٍ سِوَی اللّٰہِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ ثُمَّ تَکَلَّمَ سَاعَۃً ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّمَا تَفِرُّ أَنْ تَقُولَ اللّٰہُ أَکْبَرُ وَتَعْلَمُ أَنَّ شَیْئًا أَکْبَرُ مِنَ اللّٰہِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: ((فَإِنَّ الْیَہُودَ مَغْضُوبٌ عَلَیْہِمْ وَإِنَّ النَّصَارٰی ضُلَّالٌ۔)) قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّی جِئْتُ مُسْلِمًا قَالَ فَرَأَیْتُ وَجْہَہُ تَبَسَّطَ فَرَحًا قَالَ ثُمَّ أَمَرَ بِی فَأُنْزِلْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ جَعَلْتُ أَغْشَاہُ آتِیہِ طَرَفَیِ النَّہَارِ قَالَ فَبَیْنَمَا أَنَا عِنْدَہُ عَشِیَّۃً إِذْ جَائَ ہُ قَوْمٌ فِی ثِیَابٍ مِنَ الصُّوفِ مِنْ ہٰذِہِ النِّمَارِ قَالَ فَصَلّٰی وَقَامَ فَحَثَّ عَلَیْہِمْ ثُمَّ قَالَ: ((وَلَوْ صَاعٌ وَلَوْ بِنِصْفِ صَاعٍ وَلَوْ بِقَبْضَۃٍ وَلَوْ بِبَعْضِ قَبْضَۃٍیَقِی أَحَدُکُمْ وَجْہَہُ حَرَّ جَہَنَّمَ أَوْ النَّارِ وَلَوْ بِتَمْرَۃٍ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَاقِی اللّٰہِ وَقَائِلٌ لَہُ مَا أَقُولُ لَکُمْ أَلَمْ أَجْعَلْ لَکَ سَمْعًا وَبَصَرًا فَیَقُولُ بَلٰی فَیَقُولُ أَلَمْ أَجْعَلْ لَکَ مَالًا وَوَلَدًا فَیَقُولُ بَلٰی فَیَقُولُ أَیْنَ مَا قَدَّمْتَ لِنَفْسِکَ فَیَنْظُرُ قُدَّامَہُ وَبَعْدَہُ وَعَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ ثُمَّ لَا یَجِدُ شَیْئًایَقِی بِہِ وَجْہَہُ حَرَّ جَہَنَّمَ لِیَقِ أَحَدُکُمْ وَجْہَہُ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ فَإِنِّی لَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ الْفَاقَۃَ فَإِنَّ اللّٰہَ نَاصِرُکُمْ وَمُعْطِیکُمْ حَتّٰی تَسِیرَ الظَّعِینَۃُ فِیمَا بَیْنَیَثْرِبَ وَالْحِیرَۃِ أَوْ أَکْثَرَ مَا تَخَافُ عَلٰی مَطِیَّتِہَا السَّرَقَ قَالَ فَجَعَلْتُ أَقُولُ فِی نَفْسِی فَأَیْنَ لُصُوصُ طَیِّیئٍ۔)) میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔ لوگوں نے عرض کیا: یہ عدی بن حاتم ہیں، میں کسی امان اور تحریر کے بغیر آ گیا تھا۔ جب مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے جایا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہلے ہی صحابہ سے کہہ چکے تھے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے لے کر کھڑے ہوئے تو ایک عورت اور ایک بچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کام ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ساتھ ہو لئے اور ان کا کام کر کے دوبارہ میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے گئے۔ ایک بچی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لئے بچھونا بچھا دیا جس پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ گئے اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کی حمدوثناء بیان کرنے کے بعد مجھ سے پوچھا کہ تمہیں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہنے سے کونسی چیز روکتی ہے، کیا تم اللہ کے علاوہ کسی معبود کو جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی نہیں، پھر آپ کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر فرمایا: تم اس لئے اللّٰہُ أَکْبَرُ کہنے سے راہ فرار اختیار کرتے ہو کہ تم اس سے کوئی بڑی چیز جا نتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہودیوں پر اللہ کا غضب ہے اور نصاری گمراہ ہیں۔ عدی کہتے ہیں: پھر میں نے کہا کہ میں خالص مسلمان ہوں۔ عدی کہتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ (یہ سن کر) نبی اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا اور میں ایک انصاری کے ہاں (بطور مہمان) رہنے لگا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں صبح و شام حاضر ہونے لگا۔ ایک دن رات کے وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تھا کہ ایک قوم آئی۔ انہوں نے اون کی دھاری دار کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھی اور خطبہ دیتے ہوئے انہیں صدقہ دینے کی ترغیب دی اور فرمایا اگرچہ ایک صاع ہو یا نصف ہو یا مٹھی ہو یا اس سے بھی کم ہو۔ تم میں سے ہر ایک (کو چاہیے کہ) اپنے چہرے کو جہنم کییا آگ کی گرمی سے بچانے کی کوشش کرے خواہ وہ ایک کھجور یا آدھی کھجور دے کر ہی ہو۔ اس لئے کہ ہر شخص کو اللہ سے ملاقات کرنی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس سے وہی کچھ فرمائے گا جو میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ کیا میں نے تمہارے کان آنکھیں نہیں بنائیں؟ وہ کہے گا ہاں کیوں نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تمہیں مال و اولاد عطاء نہیں کئے۔ وہ کہے گا ہاں کیوں نہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا وہ کہاں ہے جو تم نے اپنے لئے آگے بھیجا تھا پھر وہ اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھے گا اور اپنے چہرے کو آگ کی گرمی سے بچانے کے لئے کوئی چیز نہیں پائے گا لہذا تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو (جہنم کی) آگ سے بچائے چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو۔ اگر یہ بھی نہ ملے تو اچھی بات کے ذریعے ہی بچائے۔ اس لئے کہ میں تم لوگوں کے متعلق فاقے سے نہیں ڈرتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار اور عطاء کرنیوالا ہے یہاں تک کہ (عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ) ایک اکیلی عورت مدینہ سے حیرہ تک سفر کرے گی اور اسے اپنی سواری کی چوری کا بھی خوف نہیں ہوگا۔ عدی کہتے ہیں کہ میں دل میں سوچنے لگا کہ اس وقت قبیلہ بنوطی کے چور کہاں ہوں گے۔