Blog
Books
Search Hadith

غزوۂ تبوک میں صحابہ کرام کو سواریوں کی قلت وغیرہ سے جو سامنا رہا اس کا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے صادر ہونے والے معجزات کا بیان

۔ (۱۰۹۳۱)۔ عَنْ شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ أَنَّ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ الْأَنْصَارِیَّ کَانَ یَقُولُ: غَزَوْنَا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوَۃَ تَبُوکَ، فَجَہَدَ بِالظَّہْرِ جَہْدًا شَدِیدًا، فَشَکَوْا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا بِظَہْرِہِمْ مِنَ الْجَہْدِ فَتَحَیَّنَ بِہِمْ مَضِیقًا، فَسَارَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِ فَقَالَ: ((مُرُّوا بِسْمِ اللّٰہِ۔)) فَمَرَّ النَّاسُ عَلَیْہِ بِظَہْرِہِمْ، فَجَعَلَ یَنْفُخُ بِظَہْرِہِمْ: ((اللَّہُمَّ احْمِلْ عَلَیْہَا فِی سَبِیلِکَ، إِنَّکَ تَحْمِلُ عَلَی الْقَوِیِّ وَالضَّعِیفِ، وَعَلَی الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔)) قَالَ: فَمَا بَلَغْنَا الْمَدِینَۃَ حَتّٰی جَعَلَتْ تُنَازِعُنَا أَزِمَّتَہَا، قَالَ فَضَالَۃُ: ہٰذِہِ دَعْوَۃُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقَوِیِّ وَالضَّعِیفِ، فَمَا بَالُ الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ؟ فَلَمَّا قَدِمْنَا الشَّامَ غَزَوْنَا غَزْوَۃَ قُبْرُسَ فِی الْبَحْرِ، فَلَمَّا رَأَیْتُ السُّفُنَ فِی الْبَحْرِ وَمَا یَدْخُلُ فِیہَا، عَرَفْتُ دَعْوَۃَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۵۵)

سیدنا فضالہ بن عبید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں غزوۂ تبوک میں شرکت کی، سواریوں کی بڑی قلت تھی، جب صحابہ کرام نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کی شکایت کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک تنگ سے راستہ پر لے چلے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس راستے پر چلے،اور فرمایا : تم اللہ کا نام لے کر یہاں سے گزرو۔ لوگ اپنی سواریاں لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی سواریوں پر پھونک مارتے اور یہ دعا کرتے جاتے: یا اللہ اس سے اپنی راہ میں کام لے تو ہی قوی اور ضعیف کو طاقت دینے والا ہے۔ اور تو ہی بروبحر یعنی خشکی اور تری اور ہر رطب و یابسیعنی تازہ اور خشک پر قدرت رکھتا ہے۔ سیدنا فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ہماری مدینہ منورہ واپسی تک ہمارے اونٹ ہم سے اپنی مہاریں کھینچتےتھے۔ یہ قوی اور ضعیف کے متعلق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاء کی برکت اور اس کا نتیجہ تھا۔ لیکن میں رطب ویابسیعنی خشک وتر کا مفہوم نہیں سمجھ سکا کہ یہاں اس سے کیا مراد ہو سکتی ہے؟ جب ہم ملکِ شام میں گئے اور ہم نے سمندر میں قبرص کی لڑائی لڑی اور میں نے سمندر میں کشتیوں کو چلتے اور سمندروں میں داخل ہوتے دیکھا تو مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاء کی حقیقت معلوم ہوئی۔
Haidth Number: 10931
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۰۹۳۱) تخریج: حدیث صحیح، أخرجہ ابن حبان: ۴۶۸۱، والطبرانی فی المعجم الکبیر : ۱۸/ ۷۷۱ (انظر: ۲۳۹۵۵)

Wazahat

Not Available